| سرخ رنگت کے دو پرندے بھلا |
| کس دشا سے ٹہلتے آ بیٹھے |
| میرے کمرے کے اس کواڑ کی اور |
| میں انہیں دیکھ کے مسلسل ہی |
| تیرے وہم و گماں میں کھونے لگا |
| اس قدر وہ حسین تھے دونوں |
| جیسے لمحاتِ وصل میں تم تھی |
| جب وہ بوسو و کنار کرتے تھے |
| تو مجھے تیرے لمس کا احساس |
| اتنی قربت سے ہو رہا تھا |
| جیسے گویا کے تم ہو پاس مرے |
| اور اپنے ہر لمس سے میرا |
| ایک اک زخم بھر رہی ہو تم ! |
| سرخ رنگت کو دیکھ کر ان کی |
| تیرے رخسار یاد آنے لگے |
| جس پہ یون کی تھی بہار کبھی |
| جس سے رنگیں تھی میری فصلِ بہار |
| جب بھی وہ چہچہانے لگتے تھے |
| مجھ کو احساس یہ کراتے تھے |
| جیسے رقصاں ہو دور وادی میں |
| تیرے ہاتھوں پہ چوڑیوں کی پکار |
| وہ پریمی پرندے تھے شاید |
| اور مسلسل لبھا رہے تھے مجھے |
| دل نے چاہا کہ نرم ہاتھوں سے |
| ان کو ریشم کی طرح تھام لوں میں |
| ان کو دیکھوں اور تیرا نام لوں میں |
| اس سے پہلے کے ٹھنڈی آہ بھرتا |
| میرے چھونے سے قبل ہی دونوں |
| کچھ بہت دور جا اڑے۔۔ |
معلومات