زہر اپنی جو زبانوں سے اگلنے لگے ہیں
لوگ معیارِ محبت سے پھسلنے لگے ہیں
اے سپیروں ذرا سا بانسری کو تیز کرو
آستینوں سے مری سانپ نکلنے لگے ہیں
ہم سے تسکینِ محبت جو سدا پاتے رہے
وہ کسی اور کی باہوں میں سنبھلنے لگے ہیں
کیا یہ بازار محبت کا تماشا تو نہیں ؟؟
کیوں میرے اتنے خریدار نکلنے لگے ہیں ؟؟
شامِ تنہائی کے سب درد اجاگر کرنے
میری آنکھوں میں مرے اشک مچلنے لگے ہیں
میرے زخموں پہ پڑی جو ترے لب کی شیریں
سوکھتے زخم بھی اب میرے بہلنے لگے ہیں
مجھ کو پا کر سرِ دربار میں تنہا ساگر
اب مرے دشمنِ جاں سارے اچھلنے لگے ہیں

24