بات لفظوں میں ہو تو سادگی مر جاتی ہے
اک کہانی مری ہر بار بکھر جاتی ہے
ان ہواؤں سے میں کرتا ہوں گزارش تیری
جب سے سنتا ہوں ہواؤں سے خبر جاتی ہے
اس کی باہیں ہیں کسی پھول کے بستر جیسی
جن میں جاؤں تو تھکن ساری اتر جاتی ہے
پھول ہر رنگ کے کھلتے ہیں نئے موسم میں
بے حسی اک مرے آنگن میں ہی بھر جاتی ہے
شام ہوتے ہی مرے ساتھ اداسی دل کی
میرے قدموں سے لپٹ کر مرے گھر جاتی ہے
کام کر سکتا نہیں ہے جو زمانہ ساگر
تجھ سے پل بھر کی جدائی مرا کر جاتی ہے

32