| کون اس شہر کے مقتل میں نگہباں ٹھہرا |
| میرے دشمن کا ہی سب حلقۂ یاراں ٹھہرا |
| اپنے انصاف پہ لینے کو زمانے سے دلیل |
| روح زخمی ہے بدن چاک گریباں ٹھہرا |
| زلفِ خم دار سے تیرے جو الجھ بیٹھا ہوں |
| جبر تو دیکھ کہ کتنا ہی میں ناداں ٹھہرا |
| دامنِ شہر کے جھرمٹ میں خداؤں کے بیچ |
| سر جھکانے کے لیے اک میں ہی انساں ٹھہرا |
| علتِ عشق میں بکتا ہوں جنوں کے باعث |
| ہے مرے لب پہ جو کچھ وہ سبھی ہذیاں ٹھہرا |
| قصبۂ شہر سے آیا ہے مسافر لٹ کر |
| جو بھی آیا ہے سرائے میں پریشاں ٹھہرا |
| جسے بدنام گلی کی تھی تمنا کل تک |
| آج دیکھو تو وہی بے سر و ساماں ٹھہرا |
| الغرض کیا ہے خدا کو بھی بہت ہی رسوا |
| بھید ساگر کا یہی دامنِ عصیاں ٹھہرا |
معلومات