| زباں کا خوں ہو اگل دے اگر جو سچائی |
| یہ عمر ہم نے سدا جھوٹے لوگوں میں پائی |
| رہے انا کی پرستش کے بول ہی بالے |
| ملا نہ کوئی یہاں بستیوں میں ہرجائی |
| افق کے دوش سے آئے بھی تو ستم کی کرن |
| کہاں غریب گھروں میں سحر لے انگڑائی |
| رواں رہے جو مرے خوں میں گردشوں کی طرح |
| وہ بھر نہ پائے کبھی آئنوں میں پرچھائی |
| فقط یہ سیکھ ملی داستانِ یوسف سے |
| حسد کے پار اترتے ہیں اپنے بھی بھائی |
| نہ جانے کتنی کتابوں کی چاہ دل میں لیے |
| کلی گلاب کی ہائے سو بار مرجھائی |
| شبِ عتاب کے آنچل میں حسرتیں لے کر |
| پھر آج اس نے یہ میت ہماری دفنائی |
| کبھی جو خواب تھے ساگر ہمیں پسند بہت |
| وہ رفتہ رفتہ مری لے رہے ہیں بینائی |
معلومات