نم جو بادِ بہار کے نکلے
میری پلکیں سوار کے نکلے
اس کے اور میرے درمیان فقط
پل شبِ انتظار کے نکلے
سونپ ڈالے ہوا کے ہاتھوں میں
خط جو بھی ان کے پیار کے نکلے
پربتِ عشق سے اتر کے بھی
ہم بلندی پہ دار کے نکلے
میرے مرنے پہ یاد آئے گا
ہم جو حالت گزار کے نکلے
بجھ کے ہم کچھ چراغ کی مانند
چاندنی کے دیار سے نکلے
رنج میرے غبار کی صورت
سینۂ دل فگار سے نکلے
دے گئے داغِ آستیں جو مجھے
سانپ سب آر پار کے نکلے
دل پہ خنجر سے گڑ گئے ساگر
جب وہ چہرہ نکھار کے نکلے

0
4