| آوارگی کو میری مٹا کیوں نہیں دیتے |
| تم مجھ کو مرے گھر کا پتہ کیوں نہیں دیتے |
| گر آنکھ کو تیری یہ کھٹکتے ہیں پرندے |
| طوفانِ لہو ان میں بہا کیوں نہیں دیتے |
| بس دور سے دیتے ہو یہ نظرانۂ فرقت |
| تم پاس مرے آ کے دغا کیوں نہیں دیتے |
| اے مالکِ تقدیر رگِ جان سے میری |
| اِس دلبرِ ناداں کو ملا کیوں نہیں دیتے |
| پڑتی ہوئی پرچھائی سے آتا ہے اگر خوف |
| پھر گھر کی یہ دیوار گرا کیوں نہیں دیتے |
| آتش تو رہے گی مری حسرت کے دیے پر |
| تم آرزو کی لو پہ ہوا کیوں نہیں دیتے |
| جن کی نسوں میں دوڑتی ہے گردشِ دولت |
| آخر وہ کسی کو بھی وفا کیوں نہیں دیتے |
| گو باعثِ تسکین ہو جائے تمہیں ساگر |
| اک گھونٹ مجھے زہر پلا کیوں نہیں دیتے |
معلومات