رنگ لفظوں میں عجب آ جائے
شعر کہنے کا بھی ڈھب آ جائے
گر لکھوں میں تری پلکوں پہ غزل
مجھ پہ کانٹوں کا غضب آ جائے
ہم تو بیٹھے ہیں یہاں یار مرے
اٹھ کے جائیں کہ تو جب آ جائے
سانحہ شامِ اذیت کا ہے
دل کو صدمہ مرے کب آ جائے
ہم فقیروں کی یہی عید میاں
جب کبھی ماہِ رجب آ جائے
روک لیتی ہے یہی آس مجھے
وہ کہ شاید یہاں اب آ جائے
خشک کوزہ مرے ہونٹوں کا بھرے
لب پہ ساگر جو وہ لب آ جائے

2