سناں کو جس نے چوم کر خدا کا دیں بچا دیا |
سلام اُس حسین پر کہ گھر کا گھر لٹا دیا |
نجانے کتنے سال سے تھی تشنہ لب یہ کربلا |
حسین نے جو ایک پھول کا لہو پلا دیا |
مماثلت ہے اس لیے بھی اپنے دین سے مجھے |
حسین نے جو اس میں اپنی خوشبو کو ملا دیا |
سرِ ثناں پہ بھی عجب تھا یہ جنوں حسین کا |
سرِ یزید کو بلند ہو کے اور جھکا دیا |
فلک پہ بجھ رہی تھی زیرِ آفتاب ہر کرن |
حسین نے چراغ اپنے خیمے کا بجھا دیا |
دلوں میں صُور پھونک کر خدائے عالمین نے |
جہاں جہاں بھی عشق تھا حسین کو بسا دیا |
خدا نے توڑ کر سبھی مجسمے یہ کہہ دیا |
نہیں تھا دوسرا حسین سو انہیں مٹا دیا |
تجھے حسد ہے کیوں مرے حسین سے یہ اس قدر |
کہ جس نے دل کی دھڑکنوں کو ماتمی بنا دیا |
معلومات