ریشمی ڈور سے کھینچوں کہ کھچا آؤں گا |
اس کے لہجے میں پکاروں میں چلا آؤں گا |
تم کناروں سے کنارا تو ملاؤں کوئی |
میں تو دریا ہوں سمندر میں بہا آؤں گا |
پیڑ آنگن میں وہی پھر سے لگاؤ اپنے |
میں پرندوں کی طرح پھر سے اڑا آؤں گا |
جب بھی لوٹوں گا ترے شہرِ ستم سے واپس |
جانتا ہوں کہ بہت ہو کے خفا آؤں گا |
ساتھ لے جاؤں گا میں ڈھیر بھری خوشیوں کا |
اور دکھ سینۂ بسمل میں اٹھا آؤں گا |
جب بھی جاؤں گا ترے ساتھ کسی منزل پر |
مجھ کو معلوم ہے میں خود کو گنوا آؤں گا |
تیری ہر بات سے جو بہل رہا ہوں ساگر |
ایسا لگتا ہے کوئی دھوکہ میں کھا آؤں گا |
معلومات