| پانی جب سر سے گزرا تھا منظر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا |
| کشتی اب جو تیری ڈوبی سمندر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا |
| خستہ سے دیوار و در میں جو پھیلی ہے اب تیرے وحشت |
| یوں لرزیدہ سہما سہما اک گھر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا |
| کرتی ہے نا اپنے من کی اس کی تصویروں سے بھی تو باتیں |
| تیری تصویروں کا یہ محشر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا |
| سنتے ہیں اب ہر اک سے کیا کیا صدمے تجھ کو لے ڈوبے |
| اس حالت کا وہ حالِ دو بھر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا |
| بکھرے تھے ہم بھی لمحہ لمحہ ٹوٹے تھے ہم بھی رفتہ رفتہ |
| اب خالی من ہو تم جو آخر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا |
| مورت کر کے مٹی کی پھر توڑ دیا اس کے جلوے کو |
| شہر میں ایسا کوئی اک بت گر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا |
| وہ ظالم ایسا ظالم تھا مرہم میں بھی وہ وار کرے بس |
| ڈوبا اپنے خون میں تر خنجر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا |
| یوں آنکھوں کو جو بھینٹ رہے ہو بیٹھے ہو جو چہرہ مل مل |
| خواب ڈرونا سا کوئی ساگر ہم نے بھی وہ دیکھا تھا |
معلومات