روٹھے ہوئے لوگوں کو منایا نہیں کرتے
جو دل سے نکل جائیں وہ آیا نہیں کرتے
کیوں پنچھی وہ گھر لوٹ کے آیا نہیں کرتے
یوں اپنے شجر کو تو ستایا نہیں کرتے
مدت ہوئی ہے بسترِ شب نیم پہ سوئے
یوں قبر سے مردوں کو جگایا نہیں کرتے
طوفاں میں بکھرنے لگی یہ بستیاں دل کی
مٹی سے گھروندے کو بنایا نہیں کرتے
بے ڈھنگ ہواؤں کی روانی ہو جہاں پر
اُس جا پہ چراغوں کو جلایا نہیں کرتے
سجتی ہے خیاباں تو فقط باغ میں صاحب
یہ راہ کبھی دل میں بنایا نہیں کرتے
مر جاتے ہیں دیوانے تو ویسے بے سبب بھی
نغمے انہیں فرقت کے سنایا نہیں کرتے
دُکھ اوڑھ کے ہنستے ہیں جو فرقت زدہ عاشق
اُن سے کبھی نظروں کو چرایا نہیں کرتے
تم ہجر کے آثار بھلے ہی رکھو ساگر
ہم گھر کے چراغوں کو جلایا نہیں کرتے

28