| صرف عزت جہاں سے پائی ہے |
| میں نے دولت نہیں کمائی ہے |
| تیرے جلوے کی آس میں میں نے |
| آنکھ سے روشنی گنوائی ہے |
| میں نے روشن کیے چراغ کئی |
| یاد جب بھی تمہاری آئی ہے |
| تیرے جانے کے بعد بھی میں نے |
| تیرے ہونے کی خوشبو پائی ہے |
| پھینکتا ہے کنویں میں یوسف کو |
| جاں سے بڑھ کے جو اس کا بھائی ہے |
| بعد ہجرت کے ان پرندوں کو |
| یاد اپنے وطن کی آئی ہے |
| آخری الوداع کہنے کو |
| میری ہر سانس تھر تھرائی ہے |
| میری اور دیکھتی نہیں یہ بھی |
| تیری تصویر بھی پرائی ہے |
| جہاں جاؤں وہی نظر آئے |
| وہ بشر بھی کوئی ہوائی ہے |
| اب کہ سمجھے مرے طبیبِ جاں |
| موت ہی اب مری دوائی ہے |
| دنیا کچھ دیوتاؤں کی ساگر |
| ایک بے ساختہ خدائی ہے |
معلومات