پہلے کسی کے ہجر میں لایا گیا ہوں میں
شاعر بنا نہیں ہوں بنایا گیا ہوں میں
اوباش محفلوں میں تری لذتوں پہ میں
دولت کی طرح تجھ پہ لٹایا گیا ہوں میں
افسانے میں مرے یہ کمی سی رہی سدا
کب حرفِ زیر اس کو سنایا گیا ہوں میں 
کچھ اور ہوں میں حالتِ سقراط اور کچھ
اپنے گماں کا زہر پلایا گیا ہوں میں
شہرِ فصیلِ جان کی ہر اک گلی میں میں
دن بھر بغیر پاؤں پھرایا گیا ہوں میں
کیوں وقت میرے دامنِ تقدیر میں نہیں
بے راہ کس لیے یوں چلایا گیا ہوں میں
زندیق مجھ کو لاکھ زمانہ کہے مگر
اقرارِ عاشقی میں جلایا گیا ہوں میں
دکھ یہ نہیں کہ دل سے بھلایا گیا مجھے
دکھ یہ ہے اس کے دل سے مٹایا گیا ہوں میں
قدرت کا شاہکار بھی ساگر عجیب ہے
دے کر جہاں کو اتنا ستایا گیا ہوں میں

0
2