| پیڑ سے پیشتر ہرا ہو گیا |
| عمر سے اپنی کچھ بڑا ہو گیا |
| عجزو غم سے نیاز مند ہو کر |
| ہر بشر خائفِ خدا ہو گیا |
| قبل اس کے سمیٹ لیتا میں |
| وقت سے آدمی جدا ہو گیا |
| ابنِ مریم تری مسیحائی |
| دیکھ کر کچھ مرا بھلا ہو گیا |
| ہاتھ اسکا جو اٹھا بارِ الہاٰ |
| غم مرا مرجعِ دعا ہو گیا |
| اس کو مفسد تھا رہ بدلنے سے |
| میں کہ اک در کا ہی گدا ہو گیا |
| تھامتا بھی کیا میں وہ زنجیر |
| جس کا قیدی سرِ ہوا ہو گیا |
| بندہ پرور سے دشمنی رکھ کر |
| اک ولی آمرِ جفا ہو گیا |
| گنگناتے غزل کے قافیے کو |
| دوسرا مصرعہ بھی ادا ہو گیا |
| سادھ لی چپی اس نے جو ساگر |
| زندگی بھر میں بے صدا ہو گیا |
معلومات