| اس بے تکلفی کو مری اور بڑھا ہی دو |
| اب غرقِ جام ہو گیا ہوں تو پلا ہی دو |
| میرِ ادب ہوں اور کھٹکتا ہوں گر تمہیں |
| پھر اپنی انجمن سے مجھے تم اٹھا ہی دو |
| اب میرے اشک بھی یہ گوارا نہیں تمہیں |
| ایسا کرو کہ تم مری آنکھیں مٹا ہی دو |
| راہِ ثواب ڈھونڈتی ہے یوں بھی کائنات |
| الزام مجھ پہ کوئی دھرو اور جلا ہی دو |
| کس نے کہا کہ ہجر کا ایام ہے مفید |
| بازارِ التفات میں قیمت لگا ہی دو |
| الفت تمہارے بس میں نہیں اور نہ انتظار |
| اے میرے یار وعدہ و پیماں بھلا ہی دو |
| گر تیری روح میں میں مسلسل نہیں رہا |
| پھر قیدِ جسم سے بھی رہائی دلا ہی دو |
| اخلاصِ روحِ عشق سے اترے ہوئے یہ لوگ |
| شہرِ گماں کی تنگ گلی میں گنوا ہی دو |
| یہ جا بجا گلی سڑی لاشوں کے ڈھیر پر |
| تربت نہیں ہے جن کے لیے تو ردا ہی دو |
| دشتِ بریدہ سر بھی ہوں اپنوں سے دور بھی |
| نوحہ کوئی تو کرب و بلا کا سنا ہی دو |
| ساگر سفر یہ میں بھی عبادت کا طے کروں |
| دلبر کے سنگِ میل پہ کانٹے بچھا ہی دو |
معلومات