| میرے عدو کی صف میں برابر کھڑے ہوئے |
| سینہ سپر جو یاروں کے لشکر کھڑے ہوئے |
| دو تیر اک جگر کو مرے کاٹتے ہوئے |
| اللہ جانے مجھ پہ جو محشر کھڑے ہوئے |
| کیسے عبور ہوتی وہ کشتی کہ جس کے بیچ |
| دیوارِ راہ بن کے سمندر کھڑے ہوئے |
| جو پرسشِ وفا کے طلب گار تھے کبھی |
| میرے تماشے کو وہ قلندر کھڑے ہوئے |
| جن کے اثر سے گردشِ دوراں بھی رک گئی |
| کیسے عجیب ہے کہ وہ دم بھر کھڑے ہوئے |
| ساماں تھا جو بھی راہِ محبت میں بیچ کر |
| اے دل تری تمنا میں بے گھر کھڑے ہوئے |
| ساگر عجب تھا مقتلِ جاناں میں معجزہ |
| سر تھا نہ دھڑ پہ پھر بھی تھے بے سر کھڑے ہوئے |
معلومات