آشنائی ہے جو ادب سے مری
آنکھ سوئی نہیں ہے شب سے مری
دے گیا انتظار کی فرصت
ہے طبیعت اداس کب سے مری
ایک لمحے کا دل کو چین نہیں
آنکھ ان سے لڑی ہے جب سے مری
جانے لے جائے گی کہاں مجھ کو
بے بسی رشتۂ عجب سے مری
چپکے سے لے گیا چرا کر وہ
زندگی خیمۂ عقب سے مری
کوئی برباد کیا کرے ساگر
جنگ اپنے ہو جب نسب سے مری

0
18