نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبہِ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینہِ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


1
5336
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

فاعِلن مفاعیلن فاعِلن مفاعیلن


0
1606
دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
آتشِ خاموش کی مانند، گویا جل گیا
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
1644
شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یا رب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پَر افشاں نکلا
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


2718
دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
"عشقِ نبرد پیشہ" طلب گارِ مرد تھا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا
تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


2942
شمارِ سبحہ،" مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا
بہ فیضِ بے دلی، نومیدیِ جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدہِ مشکل پسند آیا
ہوائے سیرِ گل، آئینہِ بے مہریِ قاتل
کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


1716
دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہِ معنی نہ ہوا
سبزہِ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


1582
ستائش گر ہے زاہد ، اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاقِ نسیاں کا
بیاں کیا کیجئے بیدادِ کاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرہِ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا
نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع ، میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ، ہوا ریشہ نَیَستاں کا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


1948
نہ ہوگا "یک بیاباں ماندگی" سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
565
سراپا رہنِ عشق و نا گزیرِ الفتِ ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
بقدرِ ظرف ہے ساقی خمارِ تشنہ کامی بھی
جو تو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
609
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا
رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1417
بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یا رب یہ درِ گنجینہِ گوہر کھلا
شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا
اِس تکلّف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا
گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاوں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
1188
شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


789
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں
تھیں بنات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


5589
نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
تھا سپندِ بزمِ وصلِ غیر ، گو بیتاب تھا
مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے !
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا
نازشِ ایّامِ خاکستر نشینی ، کیا کہوں
پہلوِ اندیشہ ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
761
شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا
یک قدم وحشِت سے درسِ دفترِ امکاں کھلا
جادہ، اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا
مانعِ وحشت خرامی ہائے لیلیٰ کون ہے؟
خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


643
نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ
"کمالِ گرمئ سعئ تلاشِ دید" نہ پوچھ
بہ رنگِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ
تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل!
کیا ہے کس نے اشارہ کہ نازِ بستر کھینچ

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2008
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
واۓ دیوانگئ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


9209
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


11330
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
ہم ہیں مشتاق اور وہ بےزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
2761
شب زُلف و رُخِ عَرَق فِشاں کا غم تھا
کیا شرح کروں کہ طُرفہ تَر عالَم تھا
رویا میں ہزار آنکھ سے صُبح تلک
ہر قطرۂ اشک دیدۂ پُرنَم تھا

0
274
دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
اُس سے گِلہ مند ہو گیا ہے گویا
پَر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں
غالبؔ منہ بند ہو گیا ہے گویا

0
532
دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
دل رُک رُک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ *
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سَوگند ہو گیا ہے غالبؔ

321
آتشبازی ہے جیسے شغلِ اطفال
ہے سوزِ جگر کا بھی اسی طور کا حال
تھا مُوجدِ عشق بھی قیامت کوئی
لڑکوں کے لئے گیا ہے کیا کھیل نکال !

191
بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال
ایّامِ جوانی رہے ساغر کَش حال
آ پہنچے ہیں تا سوادِ اقلیم عدم
اے عُمرِ گُذشتہ یک قدم استقبال

185
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سُن سُن کے اسے سخنورانِ کامل
آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگر نگویم مشکل

0
599
ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
آثارِ جلالی و جمالی باہم
ہوں شاد نہ کیوں سافل و عالی باہم
ہے اب کے شبِ قدر و دِوالی باہم

0
237
کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
عُشّاق کی پُرسش سے اُسے عار نہیں
جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہوگا
کیونکر مانوں کہ اُس میں تلوار نہیں !

0
245
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں ؟
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں ؟
روزہ مِرا اِیمان ہے غالبؔ ! لیکن
خَسخانہ و برفاب کہاں سے لاؤں ؟

0
377
دل تھا ، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی
بیتابئ رشک و حسرتِ دید سہی
ہم اور فُسُردن اے تجلی افسوس
تکرار روا نہیں تو تجدید سہی

0
439
ہے خَلقِ حسد قماش لڑنے کے لئے
وحشت کدۂ تلاش لڑنے کے لئے
یعنی ہر بار صُورتِ کاغذِ باد
ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لئے

0
269
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال
ہے لُطف و عنایاتِ شہنشاہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال بے بحث و جِدال
ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال

0
537
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
تا شاہ شیوعِ دانش و داد کرے
یہ جو دی گئی ہے رشتۂ عمر میں گانٹھ
ہے صِفر کہ افزائشِ اعداد کرے

0
368
اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں ، بلکہ سِوا
اِتنے ہی برس شُمار ہوں ، بلکہ سِوا
ہر سیکڑے کو ایک گرہ فرض کریں
ایسی گرہیں ہزار ہوں ، بلکہ سِوا

0
315
ہم گر چہ بنے سلام کرنے والے
کرتے ہیں دِرنگ ، کام کرنے والے
کہتے ہیں کہیں خدا سے ، اللہ اللہ!
وُہ آپ ہیں صُبح و شام کرنے والے !

0
282
اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
بھیجے ہیں جو اَرمُغاں شہِ والا نے
گِن کر دیویں گے ہم دُعائیں سَو بار
فیروزے کی تسبیح کے ، ہیں یہ دانے

0
174
رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
ثاقب! حرکت یہ کی ہے بے جا تم نے
حاجی کلّو کو دے کے بے وجہ جواب
غالبؔ کا پکا دیا ہے کلیجا تم نے

0
219
اے منشئ خیرہ سر سخن ساز نہ ہو
عصفور ہے تو مقابلِ باز نہ ہو
آواز تیری نکلی اور آواز کے ساتھ
لاٹھی وہ لگی کہ جس میں آواز نہ ہو

0
220
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے 'کیا'؟
حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
1228
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا!
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن


0
3650
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


1987
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
842
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخمِ کاری ہے
پھِر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


3758
جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذت زندگانی کی
کشاکش‌ ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی
ہوئی زنجیر، موجِ آب کو فرصت روانی کی
پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے
شرارِ سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
523
نکوہش ہے سزا فریادئ بیدادِ دل بر کی
مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی
رگِ لیلیٰ کو خاکِ دشتِ مجنوں ریشگی بخشے
اگر بو دے بجائے دانہ دہقاں نوک نشتر کی
پرِ پروانہ شاید بادبانِ کشتیٔ مے تھا
ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دورِ ساغر کی

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
454
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قسم ہوئے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1884
جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینِ بے زبانی
مجھے اس سے کیا توقّع بہ زمانۂ جوانی
کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی
یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا
کہ مرے عدو کو یا رب ملے میری زندگانی

فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن


0
537
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے
نے مژدۂ وصال نہ نظارۂ جمال
مدت ہوئی کہ آشتیٔ چشم و گوش ہے
مے نے کیا ہے حسنِ خود آرا کو بے حجاب
اے شوق یاں اجازتِ تسلیمِ ہوش ہے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1068
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار اگر تمھیں ہوسِ نائے و نوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
ساقی بہ جلوہ دشمنِ ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزنِ تمکین و ہوش ہے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1527
آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے
دیتے ہیں جنت حیاتِ دہر کے بدلے
نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے
گِریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے

مفتَعِلن فاعلات مفتَعِلن فِع


0
2209
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاشکے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1067
ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے
کہ تارِ دامن و تارِ نظر میں فرق مشکل ہے
رفوئے زخم سے مطلب ہے لذت زخمِ سوزن کی
سمجھیو مت کہ پاسِ درد سے دیوانہ غافل ہے
وہ گل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالبؔ
چٹکنا غنچۂ گل کا صدائے خندۂ دل ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


596
پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
خارِ پا ہیں جوہرِ آئینۂ زانو مجھے
دیکھنا حالت مرے دل کی ہم آغوشی کے وقت
ہے نگاہِ آشنا تیرا سرِ ہر مو مجھے
ہوں سراپا سازِ آہنگِ شکایت کچھ نہ پوچھ
ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
400
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے
سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قدِ دل کش سے جو گلزار میں آوے
تب نازِ گراں مایگیٔ اشک بجا ہے
جب لختِ جگر دیدۂ خوں بار میں آوے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
1602
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچھا ہے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
872
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
خار خارِ المِ حسرتِ دیدار تو ہے
شوق گل چینِ گلستانِ تسلّی نہ سہی
مے پرستاں خمِ مے منہ سے لگائے ہی بنے
ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
968
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے
قضا نے تھا مجھے چاہا خرابِ بادۂ الفت
فقط خراب لکھا، بس نہ چل سکا قلم آگے
غمِ زمانہ نے جھاڑی نشاطِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذتِ الم آگے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلاتن


2186
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلا ہوتا ہے
پر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
گو سمجھتا نہیں پر حسن تلافی دیکھو
شکوۂ جور سے سر گرمِ جفا ہوتا ہے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1172
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیٔ عدو کیا ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
6095
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بےکسی کی شرم
وہ حلقہ ہائے زلف، کمیں میں ہیں اے خدا
رکھ لیجو میرے دعویِ وارستگی کی شرم

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
857
از آں جا کہ حسرت کشِ یار ہیں ہم
رقیبِ تمنائے دیدار ہیں ہم
رسیدن گلِ باغ واماندگی ہے
عبث محفل آرائے رفتار ہیں ہم
تماشائے گلشن تماشائے چیدن
بہار آفرینا! گنہ گار ہیں ہم

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن


2046
لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
غالبؔ یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


427
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کار و بارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں

فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
1099
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانئ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
1003
آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں
ہے گریباں ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں
ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب
ذرّے اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
451
عہدے سے مدِح‌ ناز کے باہر نہ آ سکا
گر اک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں
حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بسوے دل
ہر تارِ زلف کو نگہِ سُرمہ سا کہوں
میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


546
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے، چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں‌ کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سَر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
705
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے
خستگی کا تم سے کیا شکوہ کہ یہ
ہتھکنڈے ہیں چرخِ نیلی فام کے
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
1405
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنانِ خطۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
911
تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے
اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے
رہا آباد عالم اہلِ ہمت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو ، مے خانہ خالی ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
535
ہم سے کھل جاؤ بوَقتِ مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن
غرّۂ اوجِ بِنائے عالمِ امکاں نہ ہو
اِس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
1439
اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
587
پئے نذرِ کرم تحفہ ہے 'شرمِ نا رسائی' کا
بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ، دعویٰ پارسائی کا
نہ ہو' حسنِ تماشا دوست' رسوا بے وفائی کا
بہ مہرِ صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا
زکاتِ حسن دے، اے جلوۂ بینش، کہ مہر آسا
چراغِ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
704
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں
کس منہ سے شکْر کیجئے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1973
مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
ہیں جمع سویدائے دلِ چشم میں آہیں

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
285
برشکالِ گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے
کھِل گئی مانندِ گُل سوَ جا سے دیوارِ چمن
اُلفتِ گل سے غلط ہے دعوئ وارستگی
سرو ہے با وصفِ آزادی گرفتارِ چمن
ہے نزاکت بس کہ فصلِ گل میں معمارِ چمن
قالبِ گل میں ڈھلی ہے خشتِ دیوارِ چمن

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
292
عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجرِ بید نہیں
سلطنت دست بَدَست آئی ہے
جامِ مے خاتمِ جمشید نہیں
ہے تجلی تری سامانِ وجود
ذرّہ بے پرتوِ خورشید نہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


1425
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے
سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں
ترے سروِ قامت سے اک قدِ آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن


0
5675
ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں
کب سے ہُوں۔ کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1254
کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں
یہ سُوِ ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


3318
ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں
غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دُور نہیں
وعدۂ سیرِ گلستاں ہے، خوشا طالعِ شوق
مژدۂ قتل مقدّر ہے جو مذکور نہیں
شاہدِ ہستئ مطلق کی کمر ہے عالَم
لوگ کہتے ہیں کہ 'ہے ' پر ہمیں‌ منظور نہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
800
نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں
ہے تقاضائے جفا، شکوۂ بیداد نہیں
عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خُوب!
ہم کو تسلیم نکو نامئ فرہاد نہیں
کم نہیں وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
790
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں؟
کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم؟
ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
493
ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر
عشق کا اس کو گماں ہم بے زبانوں پر نہیں

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
249
قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
تعجّب سے وہ بولا ' یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں؟ '
دلِ نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالبؔ
نہ کر سرگرم اس کافر کو اُلفت آزمانے میں

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
394
دل لگا کر لگ گیا اُن کو بھی تنہا بیٹھنا
بارے اپنی بے کسی کی ہم نے پائی داد، یاں
ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہرِ گردوں ہے چراغِ رہ گزارِ باد، یاں

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
311
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
1037
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں
کوئی کہے کہ 'شبِ مَہ میں کیا بُرائی ہے'
بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں
جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
569
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں
چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پُوچھتا ہوں کہ " جاؤں کدھر کو مَیں"
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو مَیں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
6292
تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہَوا باندھتے ہیں
آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے
ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں
تیری فرصت کے مقابل اے عُمر!
برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
501
زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ
وگرنہ ہم تو توقعّ زیادہ رکھتے ہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
675
دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
2483
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں
تھیں بنات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
590
دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے* جیب میں اک تار بھی نہیں
دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1506
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے درخُور مرے تن میں
ہُوا ہے تارِ اشکِ یاس، رشتہ چشمِ سوزن میں
ہُوئی ہے مانعِ ذوقِ تماشا، خانہ ویرانی
کفِ سیلاب باقی ہے برنگِ پنبہ روزن میں
ودیعت خانۂ بے دادِ کاوش ہائے مژگاں ہوں
نگینِ نامِ شاہد ہے مرا ہر قطرہ خوں تن میں

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
330
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں
مگر غبار ہُوے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
825
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار ۔کوئی ہمیں ستائے کیوں؟
دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر * ہمیں اُٹھائے کیوں؟
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز ۔پردے میں منہ چھپائے کیوں؟

مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن


0
1595
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سے مجھے بتا کہ یُوں
پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا؟ کہ بن کہے
اُس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں
رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یُوں

مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن


0
962
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خوں نابہ فشانی میری
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری

فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1222
نقشِ نازِ بتِ طناز بہ آغوشِ رقیب
پائے طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے
تو وہ بد خو کہ تحیر کو تماشا جانے
غم وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے
وہ تبِ عشق تمنا ہے کہ پھر صورتِ شمع
شعلہ تا نبضِ جگر ریشہ دوانی مانگے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
854
گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے
واں کنگرِ استغنا ہر دم ہے بلندی پر
یاں نالے کو اور الٹا دعوائے رسائی ہے
از بسکہ سکھاتا ہے غم ضبط کے اندازے
جو داغ نظر آیا اک چشم نمائی ہے

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن


1
756
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی
اچھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حوصلگی سے
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
650
سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے
آغوشِ گل کشودہ برائے وداع ہے
اے عندلیب چل! کہ چلے دن بہار کے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
266
ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں
معشوقِ شوخ و عاشقِ دیوانہ چاہیے
اُس لب سے مل ہی جاۓ گا بوسہ کبھی تو، ہاں!
شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہیے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
509
چاہیے اچھوں کو ، جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
صحبتِ رنداں سے واجب ہے حَذر
جائے مے ، اپنے کو کھینچا چاہیے
چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل؟
بارے اب اس سے بھی سمجھا چاہیے!

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
2288
ہر قدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے ، بیاباں مجھ سے
درسِ عنوانِ تماشا ، بہ تغافل خوش تر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے
وحشتِ آتشِ دل سے ، شبِ تنہائی میں
صورتِ دود ، رہا سایہ گریزاں مجھ سے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
1162
نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو ، مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جائے
کاش! یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
853
چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عریانی کرے
صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے
جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ ، گر کیجے خیال
دیدۂ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے
ہے شکستن سے بھی دل نومید ، یا رب! کب تلک
آب گینہ کوہ پر عرضِ گِراں جانی کرے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
436
وہ آ کے ، خواب میں ، تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل ، مجالِ خواب تو دے
کرے ہے قتل ، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے
دکھا کے جنبشِ لب ہی ، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
865
تپش سے میری ، وقفِ کشمکش ، ہر تارِ بستر ہے
مرا سر رنجِ بالیں ہے ، مرا تن بارِ بستر ہے
سرشکِ سر بہ صحرا دادہ ، نورُ العینِ دامن ہے
دلِ بے دست و پا افتادہ بر خور دارِ بستر ہے
خوشا اقبالِ رنجوری ! عیادت کو تم آئے ہو
فروغِ شمع بالیں ، طالعِ بیدارِ بستر ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


463
خطر ہے رشتۂ الفت رگِ گردن نہ ہو جائے
غرورِ دوستی آفت ہے ، تو دشمن نہ ہو جائے
سمجھ اس فصل میں کوتاہیٔ نشو و نما ، غالبؔ!
اگر گل سرو کے قامت پہ ، پیراہن نہ ہو جائے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
233
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابندِ نے نہیں ہے
کیوں بوتے ہیں باغبان تونبے؟
گر باغ گدائے مے نہیں ہے
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی کوئی شے نہیں ہے

مفعول مفاعِلن فَعُولن


0
4365
نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
کہ اس میں ریزۂ الماس جزوِ اعظم ہے
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ کہ ، بظاہر نگاہ سے کم ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
451
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں ، ولے ، اُن کی تمنا نہیں کرتے
در پردہ اُنھیں غیر سے ہے ربطِ نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے
یہ باعثِ نومیدیِ اربابِ ہوس ہے
غالبؔ کو بُرا کہتے ہو ، اچھا نہیں کرتے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
977
کرے ہے بادہ ، ترے لب سے ، کسبِ رنگِ فروغ
خطِ پیالہ ، سراسر نگاہِ گل چیں ہے
کبھی تو اِس سرِ شوریدہ کی بھی داد ملے!
کہ ایک عمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے
بجا ہے ، گر نہ سنے ، نالہ ہائے بلبلِ زار
کہ گوشِ گل ، نمِ شبنم سے پنبہ آگیں ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
567
کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محوِ تغافل ، کیوں نہ ہو؟
یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے
مرتے مرتے ، دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
وائے ناکامی ! کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
عارضِ گل دیکھ ، رُوئے یار یاد آیا ، اسدؔ!
جوششِ فصلِ بہاری اشتیاق انگیز ہے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
393
دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے
ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے
یہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے ، کیا کہیے!
رہے ہے یوں گہ و بے گہ ، کہ کوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ، کیا کہیے!

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1175
گھستے گھستے پاؤں کی زنجیر آدھی رہ گئی
مر گئے پر قبر کی تعمیر آدھی رہ گئی
سب ہی پڑھتا کاش، کیوں تکبیر آدھی رہ گئی
"کھنچ کے، قاتل! جب تری شمشیر آدھی رہ گئی
غم سے جانِ عاشقِ دل گیر آدھی رہ گئی"
بیٹھ رہتا لے کے چشمِ پُر نم اس کے روبروُ

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


809
ہاں! اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو
اے دجلۂ خوں! چشمِ ملائک سے رواں ہو
اے زمزمۂ قُم! لبِ عیسیٰ پہ فغاں ہو
اے ماتمیانِ شہِ مظلوم! کہاں ہو
بگڑی ہے بہت بات، بنائے نہیں بنتی
اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
487
سلام اسے کہ اگر بادشہ کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو
خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2513
خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا
کیا ہی اِس چاند سے مُکھڑے پہ بھلا لگتا ہے!
ہے تِرے حُسنِ دل افروز کا زیور سہرا
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرفِ کُلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے تِرا لمبر سہرا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
959
ہم نشیں تارے ہیں، اور چاند شہاب الدیں خاں
بزمِ شادی ہے فلک، کاہکشاں ہے سہرا
ان کو لڑیاں نہ کہو، بحر کی موجیں سمجھو
ہے تو کشتی میں، ولے بحرِ رواں ہے سہرا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
269
چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا
چاند کا دائرہ لے، زہرہ نے گایا سہرا
رشک سے لڑتی ہیں آپس میں اُلجھ کر لڑیاں
باندھنے کے لیے جب سر پہ اُٹھایا سہرا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
385
منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے
سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
آزادہ رَو ہوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
479
اے شہنشاہِ فلک منظرِ بے مثل و نظیر
اے جہاندارِ کرم شیوۂ بے شبہ و عدیل
پاؤں سے تیرے مَلے فرقِ ارادتِ ا ورنگ
فرق سے تیرے کرے کسبِ سعادت اِکلیل
تیرا اندازِ سُخَن شانۂ زُلفِ اِلہام
تیری رفتارِ قلم جُنبشِ بالِ جبریل

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
704
گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری
کیا کرتے تھے تم تقریر، ہم خاموش رہتے تھے
بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی، جانے دو، مل جاؤ
قَسم لو ہم سے گر یہ بھی کہیں کیوں ہم نہ کہتے تھے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
489
کلکتہ کا جو ذکر کیا تُو نے ہم نشیں!
اِک تِیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
وہ سبزہ زار ہائے مُطرّا کہ، ہے غضب!
وُہ نازنیں بُتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے!
صبر آزما وہ اُن کی نگاہیں کہ حف نظر!
طاقت رُبا وہ اُن کا اشارا کہ ہائے ہائے!

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


597
ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھّا کہیے
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
مُہرِ مکتوبِ عزیزانِ گرامی لکھیے
حرزِ بازوئے شگرفانِ خود آرا کہیے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
812
نہ پُوچھ اِس کی حقیقت، حُضُورِ والا نے
مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی رَوغَنی روٹی
نہ کھاتے گیہوں، نکلتے نہ خُلد سے باہر
جو کھاتے حضرتِ آدم یہ بیسَنی روٹی

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
484
ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ صَفَر چلو
رکھ دیں چمن میں بھر کے مئے مُشک بُو کی ناند
جو آئے، جام بھر کے پیے، اور ہو کے مست
سبزے کو رَوندتا پھرے، پُھولوں کو جائے پھاند
غالبؔ یہ کیا بیاں ہے، بجُز مدحِ پادشاہ
بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشتِ خواند

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
248
افطارِ صوم کی جسے کچھ دستگاہ ہو
اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
734
اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں
پھرا آسیمہ سر، گھبرا گیا تھا جی بیاباں سے
نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے
کہا میں نے کہ "او گمنام! آخر ماجرا کیا ہے
پڑا ہے کام تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے"

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
424
خُجستہ انجمنِ طُوئے میرزا جعفر
کہ جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظ
ہوئی ہے ایسے ہی فرخندہ سال میں غالبؔ
نہ کیوں ہو مادۂ سالِ عیسوی "محظوظ"

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
231
ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
ہوا بزمِ طرب میں رقصِ ناہید
کہا غالبؔ سے "تاریخ اس کی کیا ہے؟"
تو بولا " اِنشراحِ جشنِ جمشید

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


0
517
اِس کتابِ طرب نصاب نے جب
آب و تاب انطباع کی پائی
فکرِ تاریخِ سال میں، مجھ کو
ایک صورت نئی نظر آئی
ہندسے پہلے سات سات کے دو
دیے ناگاہ مجھ کو دکھلائی

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
532
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
جہاں میں جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے
ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی پہ مجھے
کہ جو شریک ہو میرا، شریکِ غالبؔ ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
352
سہل تھا مُسہل ولے یہ سخت مُشکل آ پڑی
مجھ پہ کیا گُزرے گی، اتنے روز حاضر بِن ہوئے
تین دن مسہل سے پہلے، تین دن مسہل کے بعد
تین مُسہل، تین تَبریدیں، یہ سب کَے دِن ہوئے؟

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
226
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
درباردار لوگ بہم آشنا نہیں
کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں کرتے ہوئے سلام
اس سے مُراد یہ ہے کہ ہم آشنا نہیں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
254
ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس
یوں کہا آتی نہیں اب کیوں صدائے عندلیب؟
بال و پر دو چار دکھلا کر کہا صیّاد نے
یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
620
اے جہاں آفریں خدائے کریم
ضائعِ ہفت چرخ، ہفت اقلیم
نام مکلوڈ جن کا ہے مشہور
یہ ہمیشہ بصد نشاط و سرور
عمرو دولت سے شادمان رہیں
اور غالبؔ پہ مہربان رہیں

فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
304
گوڑگانویں کی ہے جتنی رعیّت، وہ یک قلم
عاشق ہے اپنے حاکمِ عادل کے نام کی
سو یہ نظر فروز قلمدان نذر ہے
مسٹر کووان صاحبِ عالی مقام کی

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
228
ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں فریاد

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
333
آئی اگر بلا تو جگر سے ٹلی نہیں
ایرا ہی دے کے ہم نے بچایا ہے کِشت کو

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
297
آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ
پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہو جاتا
کاش ناقدر نہ ہوتا ترا اندازِ خرام
میں غبارِ سرِ دامانِ فنا ہو جاتا
یک شبہ فرصتِ ہستی ہے اک آئینۂ غم
رنگِ گل کاش! گلستاں کی ہَوا ہو جاتا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


398
بدتر از ویرانہ ہے فصلِ خزاں میں صحنِ باغ
خانۂ بلبل بغیر از خندۂ گل بے چراغ
پتّا پتّا اب چمن کا انقلاب آلودہ ہے
نغمۂ مرغِ چمن زا ہے صدائے بوم و زاغ
ہاں بغیر از خوابِ مرگ آسودگی ممکن نہیں
رختِ ہستی باندھ تا حاصل ہو دنیائے فراغ

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
387
خزینہ دارِ محبت ہوئی ہوائے چمن
بنائے خندۂ عشرت ہے بر بِنائے چمن
بہ ہرزہ سنجیِ گلچیں نہ کھا فریبِ نظر
ترے خیال کی وسعت میں ہے فضائے چمن
یہ نغمۂ سنجیِ بلبل متاعِ زحمت ہے
کہ گوشِ گل کو نہ راس آئے گی صدائے چمن

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
402
کرم ہی کچھ سببِ لطف و التفات نہیں
انہیں ہنسا کے رلانا بھی کوئی بات نہیں
کہاں سے لا کے دکھائے گی عمرِ کم مایہ
سیہ نصیب کو وہ دن کہ جس میں رات نہیں
زبان حمد کی خوگر ہوئی تو کیا حاصل
کہ تیری ذات میں شامل تری صفات نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
547
جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں
اور اس کے سوا کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں
اک سرحدِ معدوم میں ہستی ہے ہماری
سازِ دل بشکستہ کی بیکار صدا ہیں
جس رخ پہ ہوں ہم، سجدہ اسی رخ پہ ہے واجب
گو قبلہ نہیں ہیں مگر اک قبلہ نما ہیں

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
554
نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں
یہ بھی اے چرخِ ستم گار! کروں یا نہ کروں
مجھ کو یہ وہم کہ انکار نہ ہو جائے کہیں
ان کو یہ فکر کہ اقرار کروں یا نہ کروں
لطف جب ہو کہ کروں غیر کو بھی میں بد نام
کہیے کیا حکم ہے سرکار! کروں یا نہ کروں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
448
وضعِ نیرنگیِ آفاق نے مارا ہم کو
ہو گئے سب ستم و جَور گوارا ہم کو
دشتِ وحشت میں نہ پایا کسی صورت سے سراغ
گردِ جولانِ جنوں تک نے پکارا ہم کو
عجز ہی اصل میں تھا حاملِ صد رنگِ عروج
ذوقِ پستیِ مصیبت نے ابھارا ہم کو

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
443
حسنِ بے پروا گرفتارِ خود آرائی نہ ہو
گر کمیں گاہِ نظر میں دل تماشائی نہ ہو
ہیچ ہے تاثیرِ عالم گیریِ ناز و ادا
ذوقِ عاشق گر اسیرِ دامِ گیرائی نہ ہو
خود گدازِ شمع آغازِ فروغِ شمع ہے
سوزشِ غم درپئے ذوقِ شکیبائی نہ ہو

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
515
نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آ جائے گی جواب کے ساتھ
مجھے بھی تاکہ تمنّا سے ہو نہ مایوسی
ملو رقیب سے لیکن ذرا حجاب کے ساتھ
نہ ہو بہ ہرزہ روادارِ سعیِ بے ہودہ
کہ دورِ عیش ہے مانا خیال و خواب کے ساتھ

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
470
بتائیں ہم تمہارے عارض و کاکُل کو کیا سمجھے
اِسے ہم سانپ سمجھے اور اُسے من سانپ کا سمجھے
یہ کیا تشبیہِ بے ہودہ ہے، کیوں موذی سے نسبت دیں
ہُما عارض کو، اور کاکل کو ہم ظلِّ ہما سمجھے
غلط ہی ہو گئی تشبیہ، یہ تو ایک طائر ہے
اسے برگِ سمن اور اُس کو سنبل کو جٹا سمجھے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
559
نسیمِ صبح جب کنعاں میں بوئے پیرَہن لائی
پئے یعقوب ساتھ اپنے نویدِ جان و تن لائی
وقارِ ماتمِ شب زندہ دارِ ہجر رکھنا تھا
سپیدی صبحِ غم کی دوش پر رکھ کر کفن لائی
شہیدِ شیوۂ منصور ہے اندازِ رسوائی
مصیبت پیشگیِ مدّعا دار و رسن لائی

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
384
وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے
ازل کے دن سے یہ اے یار ہوتی آئی ہے
جوابِ جنّتِ بزمِ نشاطِ جاناں ہے
مری نگاہ جو خوں بار ہوتی آئی ہے
نموئے جوشِ جنوں وحشیو! مبارک باد
بہار ہدیۂ انظار ہوتی آئی ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
416
یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے
دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں گے
وجہِ مایوسیِ عاشق ہے تغافل ان کا
نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے
دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
749
نمائش پردہ دارِ طرز بیدادِ تغافل ہے
تسلّی جانِ بلبل کے لیے خندیدنِ گل ہے
نمودِ عالَمِ اسباب کیا ہے؟ لفظِ بے معنی
کہ ہستی کی طرح مجھ کو عدم میں بھی تامّل ہے
نہ رکھ پابندِ استغنا کو قیدی رسمِ عالم کا
ترا دستِ دعا بھی رخنہ اندازِ توکّل ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
540
خود جان دے کے روح کو آزاد کیجیے
تاکے خیالِ خاطرِ جلّاد کیجیے
بھولے ہوئے جو غم ہیں انہیں یاد کیجیے
تب جا کے ان سے شکوۂ بے داد کیجیے
حالانکہ اب زباں میں نہیں طاقتِ فغاں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ فریاد کیجیے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
421
ہم سے خوبانِ جہاں پہلو تہی کرتے رہے
ہم ہمیشہ مشقِ از خود رفتگی کرتے رہے
کثرت آرائی خیالِ ما سوا کی وہم تھی
مرگ پر غافل گمانِ زندگی کرتے رہے
داغہائے دل چراغِ خانۂ تاریک تھے
تا مغاکِ قبر پیدا روشنی کرتے رہے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
602
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ خدا خدا کیجے

فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
1399
سکوت و خامشی اظہارِ حالِ بے زبانی ہے
کمینِ درد میں پوشیدہ رازِ شادمانی ہے
عیاں ہیں حال و قالِ شیخ سے اندازِ دلچسپی
مگر رندِ قَدَح کش کا ابھی دورِ جوانی ہے
ثباتِ چند روزہ کارفرمائے غم و حسرت
اجل سرمایہ دارِ دورِ عیش و کامرانی ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
390
کس کی برقِ شوخیِ رفتار کا دلدادہ ہے
ذرّہ ذرّہ اس جہاں کا اضطراب آمادہ ہے
ہے غرورِ سرکشی صورت نمائے عجز بھی
منقلب ہو کر بسانِ نقشِ پا افتادہ ہے
خانہ ویراں سازیِ عشقِ جفا پیشہ نہ پوچھ
نا مرادوں کا خطِ تقدیر تک بھی سادہ ہے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
349
اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
کیا طرفہ تمنّا ہے امیدِ کرم تجھ سے
امّیدِ نوازش میں کیوں جیتے تھے ہم آخر
سہتے ہی نہیں کوئی جب درد و الم تجھ سے
وارفتگیِ دل ہے یا دستِ تصرّف ہے
ہیں اپنے تخیّل میں دن رات بہم تجھ سے

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن


0
519
دعوۂ عشقِ بتاں سے بہ گلستاں گل و صبح
ہیں رقیبانہ بہم دست و گریباں گل و صبح
ساقِ گلرنگ سے اور آئنۂ زانو سے
جامہ زیبوں کے سدا ہیں تہِ داماں گل و صبح
وصلِ آئینہ رخاں ہم نفسِ یک دیگر
ہیں دعا ہائے سحر گاہ سے خواہاں گل و صبح

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
350
بسکہ ہیں بدمستِ بشکن بشکنِ میخانہ ہم
موئے شیشہ کو سمجھتے ہیں خطِ پیمانہ ہم
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم
بسکہ ہر یک موئے زلف افشاں سے ہے تارِ شعاع
پنجۂ خورشید کو سمجھے ہیں دستِ شانہ ہم

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
400
صاف ہے ازبسکہ عکسِ گل سے گلزارِ چمن
جانشینِ جوہرِ آئینہ ہے خارِ چمن
ہے نزاکت بس کہ فصلِ گل میں معمارِ چمن
قالبِ گل میں ڈھلی ہے خشتِ دیوارِ چمن
برشگالِ گریۂ عشاق دیکھا چاہیے
کھل گئی مانندِ گل سو جا سے دیوارِ چمن

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
308
ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں
دامنِ تمثال آبِ آئنہ سے تر نہیں
ہوتے ہیں بے قدر در کنجِ وطن صاحب دلاں
عزلت آبادِ صدف میں قیمتِ گوہر نہیں
باعثِ ایذا ہے برہم خوردنِ بزمِ سرور
لخت لختِ شیشۂ بشکستہ جز نشتر نہیں

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
290
ہم زباں آیا نظر فکرِ سخن میں تو مجھے
مردمک ہے طوطیِ آئینۂ زانو مجھے
یادِ مژگانِ بہ نشتر زارِ صحرائے خیال
چاہیے بہرِ تپش یک دست صد پہلو مجھے
خاکِ فرصت بر سرِ ذاقِ فنا اے انتظار
ہے غبارِ شیشۂ ساعت رمِ آہو مجھے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
308
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے
سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے
بعد از وداعِ یار بہ خوں در طپیدہ ہیں
نقشِ قدم ہیں ہم کفِ پائے نگار کے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


481
بسکہ حیرت سے ز پا افتادہِ زنہار ہے
ناخنِ انگشت تبخالِ لبِ بیمار ہے
زلف سے شب درمیاں دادن نہیں ممکن دریغ
ورنہ صد محشر بہ رہنِ صافیِ رخسار ہے
در خیال آبادِ سودائے سرِ مژگانِ دوست
صد رگِ جاں جادہ آسا وقفِ نشتر زار ہے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
555
نیم رنگی جلوہ ہے بزمِ تجلی رازِ دوست
دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست
چشم بندِ خلق جز تمثال خود بینی نہیں
آئینہ ہے قالبِ خشتِ در و دیوارِ دوست
برق خرمن زارِ گوہر ہے نگاہِ تیزْ یاں
اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمیِ رفتارِ دوست

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
439
ہم بے خودئ عشق میں کر لیتے ہیں سجدے
یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں ناصِیہ سا ہیں

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
234
اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں
ہے حیا مانعِ اظہار۔ کہوں یا نہ کہوں
نہیں کرنے کا میں تقریر ادب سے باہر
میں بھی ہوں واقفِ اسرار ۔کہوں یا نہ کہوں
شکوہ سمجھو اسے یا کوئی شکایت سمجھو
اپنی ہستی سے ہوں بیزار۔ کہوں یا نہ کہوں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
494
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشتِ غم میں آہوئے صیّاد دیدہ ہوں
ہوں دردمند، جبر ہو یا اختیار ہو
گہ نالۂ کشیدہ، گہ اشکِ چکیدہ ہوں
نے سُبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے رابطہ
میں معرضِ مثال میں دستِ بریدہ ہوں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


1838
جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتارِ بلا ہیں
کپڑوں میں جوئیں بخیے ٹانکوں سے سوا ہیں

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
220