دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا |
"عشقِ نبرد پیشہ" طلب گارِ مرد تھا |
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا |
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا |
تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں |
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا |
دل تا جگر، کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب |
اس رہ گزر میں جلوہِ گل، آگے گرد تھا |
جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی ! |
دل بھی اگر گیا، تو وُہی دل کا درد تھا |
احباب چارہ سازئ وحشت نہ کر سکے |
زنداں میں بھی خیال، بیاباں نورد تھا |
یہ لاشِ بے کفن اسدِؔ خستہ جاں کی ہے |
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات