تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
16 جنوری
غزل
محسن نقوی
ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
216
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر، بہ تنگیِ چشمِ حُسود تھا
آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
2
657
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
"عشقِ نبرد پیشہ" طلب گارِ مرد تھا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا
تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا
دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
156
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا
رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
113
29 جولائی
نظم
مصطفیٰ زیدی
شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے
وہ لُطفِ حرف و لذّتِ حسنِ بیاں کہاں
پیچھے گُزر گئی ہے سِتاروں کی روشنی
یارو ، بسا رہے ہو نئی بستیاں کہاں
اے منزلِ ابد کے چراغو ، جواب دو
آگے اب اور ہو گا مرا کارواں کہاں
شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
4
419
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قسم ہوئے
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
83
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے
نے مژدۂ وصال نہ نظارۂ جمال
مدت ہوئی کہ آشتیٔ چشم و گوش ہے
مے نے کیا ہے حسنِ خود آرا کو بے حجاب
اے شوق یاں اجازتِ تسلیمِ ہوش ہے
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
114
29 جولائی
نظم
مرزا غالب
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار اگر تمھیں ہوسِ نائے و نوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
ساقی بہ جلوہ دشمنِ ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزنِ تمکین و ہوش ہے
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
95
29 جولائی
غزل
جوش ملیح آبادی
حیرت ہے، آہِ صبح کو ساری فضا سنے
لیکن زمیں پہ بت، نہ فلک پر خدا سنے
فریادِ عندلیب سے کانپے تمام باغ
لیکن نہ گل، نہ غنچہ، نہ بادِ صبا سنے
خود اپنی ہی صداؤں سے گونجے ہوئے ہیں کان
کوئی کسی کی بات سنے بھی تو کیا سنے
حیرت ہے، آہِ صبح کو ساری فضا سنے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
6
1
616
29 جولائی
نظم
جوش ملیح آبادی
اے مرتضیٰ، مدینۂ علمِ خدا کے باب!
اسرارِ حق ہیں، تیری نگاہوں پہ بے نقاب
ہے تیری چشم فیض سے اسلام کامیاب
ہر سانس ہے مکارم اخلاق کا شباب
نقشِ سجود میں، وہ ترے سوز و ساز ہے
فرشِ حرم کو جس کی تجلی پہ ناز ہے
اے مرتضیٰ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
67
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بےکسی کی شرم
وہ حلقہ ہائے زلف، کمیں میں ہیں اے خدا
رکھ لیجو میرے دعویِ وارستگی کی شرم
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
75
29 جولائی
شعر
مرزا غالب
لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
غالبؔ یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں
لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
46
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
عہدے سے مدِح ناز کے باہر نہ آ سکا
گر اک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں
حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بسوے دل
ہر تارِ زلف کو نگہِ سُرمہ سا کہوں
میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں
عہدے سے مدِح ناز کے باہر نہ آ سکا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
37
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں
کس منہ سے شکْر کیجئے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
77
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں
کب سے ہُوں۔ کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
62
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں
یہ سُوِ ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
140
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے* جیب میں اک تار بھی نہیں
دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
80
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے
آغوشِ گل کشودہ برائے وداع ہے
اے عندلیب چل! کہ چلے دن بہار کے
سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
56
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں
معشوقِ شوخ و عاشقِ دیوانہ چاہیے
اُس لب سے مل ہی جاۓ گا بوسہ کبھی تو، ہاں!
شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہیے
ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
55
29 جولائی
نظم
مرزا غالب
منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے
سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
آزادہ رَو ہوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
بیانِ مصنّف (گزارشِ غالبؔ)
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
71
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
کلکتہ کا جو ذکر کیا تُو نے ہم نشیں!
اِک تِیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
وہ سبزہ زار ہائے مُطرّا کہ، ہے غضب!
وُہ نازنیں بُتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے!
صبر آزما وہ اُن کی نگاہیں کہ حف نظر!
طاقت رُبا وہ اُن کا اشارا کہ ہائے ہائے!
ہائے ہائے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
81
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ صَفَر چلو
رکھ دیں چمن میں بھر کے مئے مُشک بُو کی ناند
جو آئے، جام بھر کے پیے، اور ہو کے مست
سبزے کو رَوندتا پھرے، پُھولوں کو جائے پھاند
غالبؔ یہ کیا بیاں ہے، بجُز مدحِ پادشاہ
بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشتِ خواند
چہار شنبہ آخرِ ماہِ صفر
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
26
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
افطارِ صوم کی جسے کچھ دستگاہ ہو
اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
روزہ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
33
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
درباردار لوگ بہم آشنا نہیں
کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں کرتے ہوئے سلام
اس سے مُراد یہ ہے کہ ہم آشنا نہیں
درباری
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
32
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
گوڑگانویں کی ہے جتنی رعیّت، وہ یک قلم
عاشق ہے اپنے حاکمِ عادل کے نام کی
سو یہ نظر فروز قلمدان نذر ہے
مسٹر کووان صاحبِ عالی مقام کی
گوڑگانویں کی ہے جتنی رعیّت، وہ یک قلم
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
26
29 جولائی
نظم
مرزا غالب
آئی اگر بلا تو جگر سے ٹلی نہیں
ایرا ہی دے کے ہم نے بچایا ہے کِشت کو
متفرقات
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
40
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
خود جان دے کے روح کو آزاد کیجیے
تاکے خیالِ خاطرِ جلّاد کیجیے
بھولے ہوئے جو غم ہیں انہیں یاد کیجیے
تب جا کے ان سے شکوۂ بے داد کیجیے
حالانکہ اب زباں میں نہیں طاقتِ فغاں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ فریاد کیجیے
خود جان دے کے روح کو آزاد کیجیے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
45
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے
سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے
بعد از وداعِ یار بہ خوں در طپیدہ ہیں
نقشِ قدم ہیں ہم کفِ پائے نگار کے
یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
38
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشتِ غم میں آہوئے صیّاد دیدہ ہوں
ہوں دردمند، جبر ہو یا اختیار ہو
گہ نالۂ کشیدہ، گہ اشکِ چکیدہ ہوں
نے سُبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے رابطہ
میں معرضِ مثال میں دستِ بریدہ ہوں
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
45
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے
قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو
کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق نا شناس* ہیں
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو
تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
119
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے
صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ میکشی
تھے یہ ہی دو حساب، سو یوں پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گئے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
60
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی
عالم غبارِ وحشتِ مجنوں ہے سر بسر
کب تک خیالِ طرۂ لیلیٰ کرے کوئی
افسردگی نہیں طرب انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
59
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہر یار کی
اترائے کیوں نہ خاک سرِ رہ گزار کی
جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ
لوگوں میں کیوں نمود نہ ہو لالہ زار کی
بھوکے نہیں ہیں سیرِ گلستاں کے ہم ولے
کیوں کر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی
روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہر یار کی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
36
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے
موجِ شراب یک مژۂ خواب ناک ہے
جز زخمِ تیغِ ناز، نہیں دل میں آرزو
جیبِ خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے
جوشِ جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں، اسدؔ
صحرا ہماری آنکھ میں یک مشتِ خاک ہے
مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
38
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے
نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے
کس کا سراغِ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا
آئینہ فرشِ شش جہتِ انتظار ہے
ہے ذرہ ذرہ تنگیٔ جا سے غبارِ شوق
گر دام یہ ہے وسعتِ صحرا شکار ہے
جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
57
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
حسرت نے لا رکھا تری بزمِ خیال میں
گلدستۂ نگاہِ سویدا کہیں جسے
پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار، تمنا کہیں جسے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
57
29 جولائی
شعر
مرزا غالب
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
40
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے
پروانہ خانہ غم ہو تو پھر کس لیے اسدؔ
ہر رات شمع شام سے لے تا سحر جلے
اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
44
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی
اک خوں چکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی
واعظ! نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی!
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
259
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کئے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
114
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا
بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی
کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا
بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
52
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
81
29 جولائی
شعر
مرزا غالب
ضعفِ جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا
اک گھر میں مختصر سا بیاباں ضرور تھا
ضعفِ جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
49
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا
مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایانِ دست و خنجرِ قاتل نہیں رہا
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
120
29 جولائی
شعر
مرزا غالب
از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو" شش جہت" سے مقابل ہے آئینہ
از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
48
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ
ناچار بیکسی کی بھی حسرت اٹھایے
دشوارئ رہ و ستمِ ہم رہاں نہ پوچھ
ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
76
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
جاہ و جلال عہدِ وصالِ بتاں نہ پوچھ
ہر داغِ تازہ یک دلِ داغ انتظار ہے
عرضِ فضائے سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ
ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
50
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
بھَوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
دے داد اے فلک! دلِ حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے
مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
51
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے
ہے کائنات کو حَرَکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے
حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
76
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے
تسکیں کو دے نوید* کہ مرنے کی آس ہے
لیتا نہیں مرے دلِ آوارہ کی خبر
اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے
کیجے بیاں سرورِ تبِ غم کہاں تلک
ہر مو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے
سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
0
46
معلومات