مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
بھَوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
دے داد اے فلک! دلِ حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوّری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
سر پائے خم پہ چاہیے ہنگامِ بے خودی
رو سوۓ قبلہ وقتِ مناجات چاہیے
یعنی بہ حسبِ گردشِ پیمانۂ صفات
عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہیے
نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن

0
1075

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں