منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی |
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے |
سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری |
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے |
آزادہ رَو ہوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل |
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے |
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں |
مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے |
اُستادِ شہ سے ہو مجھے پَرخاش کا خیال؟ |
یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں مجھے |
جامِ جہاں نُما ہے شہنشاہ کا ضمیر |
سَوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے |
میں کون، اور ریختہ، ہاں اِس سے مدعا |
جُز انبساطِ خاطرِ حضرت نہیں مجھے |
سِہرا لکھا گیا ز رہِ امتثالِ اَمر |
دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے |
مقطع میں آ پڑی ہے سُخن گُسترانہ بات |
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے |
رُوئے سُخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاہ |
سودا نہیں، جُنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے |
قسمت بُری سہی پَہ طبیعت بُری نہیں |
ہے شُکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے |
صادق ہوں اپنے قول میں غالبؔ، خدا گواہ |
کہتا ہوں سچ کہ جُھوٹ کی عادت نہیں مجھے |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات