ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ صَفَر چلو |
رکھ دیں چمن میں بھر کے مئے مُشک بُو کی ناند |
جو آئے، جام بھر کے پیے، اور ہو کے مست |
سبزے کو رَوندتا پھرے، پُھولوں کو جائے پھاند |
غالبؔ یہ کیا بیاں ہے، بجُز مدحِ پادشاہ |
بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشتِ خواند |
بَٹتے ہیں سونے رُوپے کے چھلے حُضُور میں |
ہے جن کے آگے سیم و زر و مہر و ماہ ماند |
یوں سمجھیے کہ بیچ سے خالی کیے ہوئے |
لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات