پھر چرخ زن ہے شیب پہ دورِ جواں کی یاد
کاخِ حرم پہ چھائی ہے کوئے بتاں کی یاد
بھیگی تھیں زمزموں کی مسیں جس کی چھاؤں میں
رہ رہ کر آ رہی ہے پھر اُس گلستاں کی یاد
پھر آئی ہے شباب کی رم جھم لیے ہوئے
شب ہائے ابر و باد کے خوابِ گراں کی یاد
اللہ پھر حیات کے گہرے سکوت پر
منڈلا رہی ہے نغمۂ آبِ رواں کی یاد
افشانِ مہ وشاں پہ جو لیتی تھیں کروٹیں
نظریں اٹھا رہی ہے پھر اُس کہکشاں کی یاد
راتیں انگیٹھیوں پہ سناتی تھیں کل جسے
سینے میں چبھ رہی ہے پھر اُس داستاں کی یاد
پھر بے نوا حیات کے ویران دوش پر
بل کھا رہی ہے گیسوئے عنبر فشاں کی یاد
پھر کھٹکھٹا رہی ہے درِ محبسِ وجود
آزادیِ نگاہ و خیال و زباں کی یاد
رکھتی تھی رتجگوں کے پپوٹوں پہ جو قدم
گونجی ہوئی ہے کان میں پھر اُس اذاں کی یاد
پھر ریگزارِ سندھ کی تپتی زمین پر
گنگا کو لے کر آئی ہے ہندوستاں کی یاد
غلطاں ہے پھر خمار کی بے کیفیوں میں جوش
دورِ سخائے حضرتِ پیرِ مغاں کی یاد
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن

0
279

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں