| ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں |
| ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں |
| اے خوش خرام پاؤں کے چھالے تو گن ذرا |
| تجھ کو کہاں کہاں نہ پھراتا رہا ہوں میں |
| اک حسن بے مثال کی تمثیل کے لیے |
| پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رہا ہوں میں |
| کیا مل گیا ضمیر ہنر بیچ کر مجھے |
| اتنا کہ صرف کام چلاتا رہا ہوں میں |
| روحوں کے پردہ پوش گناہوں سے بے خبر |
| جسموں کی نیکیاں ہی گناتا رہا ہوں میں |
| تجھ کو خبر نہیں کہ ترا کرب دیکھ کر |
| اکثر ترا مذاق اڑاتا رہا ہوں میں |
| شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی |
| لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں |
| اک سطر بھی کبھی نہ لکھی میں نے تیرے نام |
| پاگل تجھی کو یاد بھی آتا رہا ہوں میں |
| جس دن سے اعتماد میں آیا ترا شباب |
| اس دن سے تجھ پہ ظلم ہی ڈھاتا رہا ہوں میں |
| اپنا مثالیہ مجھے اب تک نہ مل سکا |
| ذروں کو آفتاب بناتا رہا ہوں میں |
| بیدار کر کے تیرے بدن کی خود آگہی |
| تیرے بدن کی عمر گھٹاتا رہا ہوں میں |
| کل دوپہر عجیب سی اک بے دلی رہی |
| بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات