| یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے |
| دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں گے |
| وجہِ مایوسیِ عاشق ہے تغافل ان کا |
| نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے |
| دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو |
| بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے |
| منتشر ہو کے بھی دل جمع رکھیں گے یعنی |
| ہم بھی اب پیروئے گیسو ئے پریشاں ہوں گے |
| گردشِ بخت نے مایوس کیا ہے لیکن |
| اب بھی ہر گوشۂ دل میں کئی ارماں ہوں گے |
| ہے ابھی خوں سے فقط گرمیِ ہنگامۂ اشک |
| پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے |
| باندھ کر عہدِ وفا اتنا تنفّر، ہے ہے |
| تجھ سے بے مہر کم اے عمرِ گریزاں! ہوں گے |
| اس قدر بھی دلِ سوزاں کو نہ جان افسردہ |
| ابھی کچھ داغ تو اے شمع! فروزاں ہوں گے |
| عہد میں تیرے کہاں گرمیِ ہنگامۂ عیش |
| گل میری قسمت واژونہ پہ خنداں ہوں گے |
| خوگرِ عیش نہیں ہیں ترے برگشتہ نصیب |
| اُن کو دشوار ہیں وہ کام جو آساں ہوں گے |
| موت پھر زیست نہ ہو جائے یہ ڈر ہے غالبؔ |
| وہ مری نعش پہ انگشت بہ دنداں ہوں گے |
بحر
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات