رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
ذرّہ ذرّہ ساغرِ مے خانۂ نیرنگ ہے
گردشِ مجنوں بہ چشمک‌ ہائے لیلیٰ آشنا
شوق ہے "ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز"
ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی، "کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا"
شکوہ سنجِ رشکِ ہم دیگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
کوہکن" نقّاشِ یک تمثالِ شیریں" تھا اسدؔ
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن

0
436

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں