رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف! |
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا |
ذرّہ ذرّہ ساغرِ مے خانۂ نیرنگ ہے |
گردشِ مجنوں بہ چشمک ہائے لیلیٰ آشنا |
شوق ہے "ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز" |
ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا |
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی، "کہ ہے |
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا" |
شکوہ سنجِ رشکِ ہم دیگر نہ رہنا چاہیے |
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا |
کوہکن" نقّاشِ یک تمثالِ شیریں" تھا اسدؔ |
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا |
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات