افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے |
جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت |
کافی ہے نشانی تری چھلّے کا نہ دینا |
خالی مجھے دکھلا کے بہ وقتِ سفر انگشت |
لکھتا ہوں اسدؔ سوزشِ دل سے سخنِ گرم |
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت |
بحر
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات