تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے
ہے دورِ قدح وجہ پریشانیِ صہبا
یک بار لگا دو خمِ مے میرے لبوں سے
رندانِ درِ مے کدہ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے
ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
656
29 جولائی 2020
نظم
جوش ملیح آبادی
کیا شعلۂ طرّار وہ اللہُ غنی ہے
کیا لرزشِ تابندگیِ سیم تنی ہے
رشکِ مہِ کنعاں ہے غزالِ خُتنی ہے
افشاں ہے کہ آمادگیِ دُر شکنی ہے
تاروں میں بپا غلغلۂ سینہ زنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
گل بدنی
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
1
1
1433
29 جولائی 2020
نظم
جوش ملیح آبادی
کل فکر یہ تھی کشورِ اسرار کہاں ہے
اب ڈھونڈ رہا ہوں کہ درِ یار کہاں ہے
پھر حُسن کے بازار میں بکنے کو چلا ہوں
اے جنسِ تدبر کے خریدار کہاں ہے
پھر روگ لگایا ہے مرے دل کو کسی نے
اے چارہ گرِ خاطرِ بیمار کہاں ہے
ڈوبتے کی پکار
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
1
1716
29 جولائی 2020
غزل
احمد فراز
وہ دشمنِ جاں، جان سے پیارا بھی کبھی تھا
اب کس سے کہیں کوئی ہمارا بھی کبھی تھا
اترا ہے رگ و پے میں تو دل کٹ سا گیا ہے
یہ زہرِ جدائی کہ گوارا بھی کبھی تھا
ہر دوست جہاں ابرِ گریزاں کی طرح ہے
یہ شہر کبھی شہر ہمارا بھی کبھی تھا
وہ دشمنِ جاں، جان سے پیارا بھی کبھی تھا
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
2
2042
29 جولائی 2020
غزل
فیض احمد فیض
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی
ناداں ہی سہی ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
556
29 جولائی 2020
غزل
مصطفیٰ زیدی
واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی
غم تیشۂ فرہاد بھی غم سنگِ گراں بھی
اُس شخص سے وابستہ خموشی بھی بیاں بھی
جو نِشترِ فصّاد بھی ہے اَور رگِ جاں بھی
کِس سے کہیں اُس حُسن کا افسانہ کہ جِس کو
کہتے ہیں کہ ظالم ہے، تو رُکتی ہے زباں بھی
واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
1
1407
29 جولائی 2020
غزل
فیض احمد فیض
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
1352
29 جولائی 2020
نظم
میر انیس
کیا زخم ہے وہ زخم کہ مرہم نہیں جس کا
کیا درد ہے جز دل کوئی محرم نہیں جس کا
کیا داغ ہے جلنا کوئی دم کم نہیں جس کا
کیا غم ہے کہ آخر کبھی ماتم نہیں جس کا
کس داغ میں صدمہ ہے فراقِ تن و جاں کا
وہ داغ ضعیفی میں ہے، فرزندِ جواں کا
کیا زخم ہے وہ زخم کہ مرہم نہیں جس کا - مرثیہ
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
5
1
4494
29 جولائی 2020
غزل
میر تقی میر
کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں دلِ غم دیدہ کہیں تھا
کس رات نظر کی ہے سوئے چشمکِ انجم
آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا
آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے لیکن
ہونٹوں پہ مرے جب نفسِ باز پسیں تھا
کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
1
2041
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائے گا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ 'جاؤں؟'
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
1467
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرّر مگر اس کی ہے کماں اور
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
621
29 جولائی 2020
قطعہ
مرزا غالب
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت
کافی ہے نشانی تری چھلّے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے بہ وقتِ سفر انگشت
لکھتا ہوں اسدؔ سوزشِ دل سے سخنِ گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
436
29 جولائی 2020
غزل
فیض احمد فیض
دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے
دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
961
29 جولائی 2020
شعر
مرزا غالب
پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
479
29 جولائی 2020
نظم
فیض احمد فیض
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
اس وقت تو یُوں لگتا ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
2
2215
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
617
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے
یہ رنج کہ کم ہے مۓ گلفام، بہت ہے
کہتے ہوئے ساقی سے، حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھے دردِ تہِ جام بہت ہے
نے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
1484
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے
دل خوں شدۂ کش مکشِ حسرتِ دیدار
آئینہ بہ دستِ بتِ بد مستِ حنا ہے
شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگیٔ دل پہ جلا ہے
شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
1395
29 جولائی 2020
شعر
مرزا غالب
ہوں میں بھی تماشائیٔ نیرنگِ تمنا
مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آوے
ہوں میں بھی تماشائیٔ نیرنگِ تمنا
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
263
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
4484
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں
اور اس کے سوا کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں
اک سرحدِ معدوم میں ہستی ہے ہماری
سازِ دل بشکستہ کی بیکار صدا ہیں
جس رخ پہ ہوں ہم، سجدہ اسی رخ پہ ہے واجب
گو قبلہ نہیں ہیں مگر اک قبلہ نما ہیں
جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
526
29 جولائی 2020
نظم
مرزا غالب
ہاں! اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو
اے دجلۂ خوں! چشمِ ملائک سے رواں ہو
اے زمزمۂ قُم! لبِ عیسیٰ پہ فغاں ہو
اے ماتمیانِ شہِ مظلوم! کہاں ہو
بگڑی ہے بہت بات، بنائے نہیں بنتی
اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی
مرثیہ
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
454
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں ، ولے ، اُن کی تمنا نہیں کرتے
در پردہ اُنھیں غیر سے ہے ربطِ نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے
یہ باعثِ نومیدیِ اربابِ ہوس ہے
غالبؔ کو بُرا کہتے ہو ، اچھا نہیں کرتے
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
935
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی
اچھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حوصلگی سے
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
593
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
ہیں جمع سویدائے دلِ چشم میں آہیں
مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
259
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے
سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قدِ دل کش سے جو گلزار میں آوے
تب نازِ گراں مایگیٔ اشک بجا ہے
جب لختِ جگر دیدۂ خوں بار میں آوے
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
0
1528
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی "کہ وو آئے"
ہوں کش مکشِ نزع میں ہاں جذبِ محبّت
کچھ کہہ نہ سکوں، پر وہ مرے پوچھنے کو آئے
ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم
آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں، گو آئے
کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
3
2
1660
معلومات