کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے |
یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی "کہ وو آئے" |
ہوں کش مکشِ نزع میں ہاں جذبِ محبّت |
کچھ کہہ نہ سکوں، پر وہ مرے پوچھنے کو آئے |
ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم |
آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں، گو آئے |
ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین |
ہاں منہ سے مگر بادۂ دو شینہ کی بو آئے |
جلاّد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے |
ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے |
ہاں اہلِ طلب! کون سنے طعنۂ نا یافت |
دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے |
اپنا نہیں وہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں |
اس در پہ نہیں بار تو کعبے ہی کو ہو آئے |
کی ہم نفسوں نے اثرِ گریہ میں تقریر |
اچھے رہے آپ اس سے مگر مجھ کو ڈبو آئے |
اس انجمنِ ناز کی کیا بات ہے غالبؔ |
ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے |
بحر
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات