Circle Image

قمر آسی

@Qamar_Aasi

بات سمجھے نہ مری اتنے ذہیں ہو پھر بھی
بولتے کیوں نہیں اے دوست ، یہیں ہو پھر بھی
چاہنے والوں کو انکار نہیں کرتے ہیں
ہاں مجھے علم ہے لاکھوں سے حسیں ہو پھر بھی
دیکھ لیتا ہوں برستے ہوئے آنسو پسِ چشم
سامنے میرے کوئی خندہ جبیں ہو پھر بھی

27
چل بھیگ جائیں فردا کے خدشات بھول کر
برسی ہے میرے شہر میں برسات بھول کر
ہوتا ہے زندگی میں ضروری وہ ایک شخص
دے اہمیت خلوص کو جو دھات بھول کر
روشن پرائی آگ سے کم ظرف کچھ دیے
سورج پہ بات کرتے ہیں اوقات بھول کر

25
خود اپنے ہاتھ کا شہکار توڑنے والا
عجیب ہے مرا معمار توڑنے والا
بلائے ہجر خدوخال کھائے جاتی ہے
ہے کوئی وقت کی رفتار توڑنے والا؟
میں توڑ دوں گا رقیبوں کی ہڈیاں فرہاد
تری طرح نہیں کہسار توڑنے والا

27
وہ اپسرائے گماں گر زمیں پہ سانس بھی لے
دکھائی دینے لگیں دشت میں بھی پھول کھِلے
یہ میرے لہجے کی تاثیر ہے کہ وہ خوش رُو
بلاؤں چاند تو چمکے ، کلی کہوں تو کھِلے
گلاب کس طرح ہنستے ہیں مجھ کو دیکھنا تھا
اِدھر یہ آرزو اُبھری ، اُدھر وہ ہونٹ ہِلے

37
یہ کب کہا کہ تیر نشانے پہ مت لگا
اتنا تو کر کسی کے اشارے پہ مت لگا
لمسِ جبین دے لب و رخسار پاس رکھ
نمکیں پسند ہوں مجھے میٹھے پہ مت لگا
زلفیں ہوا کے دوش پہ اڑنے سے روک لے
آب و ہوائے شہر کو نشے پہ مت لگا

2
56
یہ راہِ اہلِ عشق نہایت مہیب ہے
میں کیسے آ گیا سرِ منزل ، عجیب ہے
موجود وہ کلی ہے نہ ہی گل ہے آس پاس
جانے کہاں سے آ رہی بوئے حبیب ہے
دیتا ہو مشورے جو محبت کے وعظ میں
بولو کسی محلے میں ایسا خطیب ہے

26
عجلت دکھائیں وصل کے مت ارتکاب میں
آ جائے ہجر بن کے نہ ہڈی کباب میں
کرتا میں ترک زہد ، چلا جاتا میکدے
اس آنکھ سا خمار جو ہوتا شراب میں
خیرہ کرے نگاہ کو اس حسن کی چمک
اک آفتابِ حسن ہے اس ماہتاب میں

21
حالِ دلِ تباہ سے وہ بے خبر نہ تھا
منظور جس کو ہونا مرا چارہ گر نہ تھا
لرزاں رہے ہیں بام و درِ عرش دیر تک
گریہ اسیرِ ہجر ترا بے اثر نہ تھا
حیراں ہوں کیسے ڈوب گئی کشتی اس جگہ
دریا میں جس مقام پہ کوئی بھنور نہ تھا

34
ڈھلنے لگتی ہے جونہی شام دیا جاتا ہے
اذن ملتے ہی سوئے بام دیا جاتا ہے
میں وہ مزدورِ محبت ہوں ، مقدر کا دھنی
اپنی مرضی کا جسے کام دیا جاتا ہے
آخرش ربطِ محبت ہوا انجام بخیر
جیسے ہر کام کو انجام دیا جاتا ہے

18
یاد آتے ہی مدینے کی مکرر جاگے
اشکِ خوابیدہ مری آنکھ کے اندر جاگے
خاکِ حرمین سے آنکھوں کو سجاؤں اک دن
بخت سویا ہوا میرا مرے سرور جاگے
جاگتا کون ہے سجدے میں جھکائے سر کو
اپنی امت کے لیے جیسے پیمبر جاگے

23
نہ صرف یہ کہ تھا نبی کا خاندان ریت پر
ہوئے نفوس کل بہتر ایک جان ریت پر
مہک رہی ہے کربلا کی ریت اس کی مشک سے
کھِلا ہے آلِ مصطفیٰ کا گلستان ریت پر
جھلس رہے تھے نازنیں بدن جفا کی دھوپ سے
شجر کوئی نہ ابر تھا نہ سائبان ریت پر

20
اس کی آنکھیں ، اس کے گیسو ، اس کا چہرہ لکھ ڈالا
میں نے ان اشعار کی صورت اس کا حلیہ لکھ ڈالا
عارض کو تشبیہ نہیں دی چاند ستاروں سے لیکن
مہکے نازک ہونٹوں کو اک تازہ غنچہ لکھ ڈالا
لفظوں کا جامہ پہنایا اس کے حسن کے سورج کو
یعنی اس کو جیسا دیکھا تھا بس ویسا لکھ ڈالا

59
ہمارے ہاتھوں میں تم کو ایسی گھڑی ملے گی
جو وقتِ رخصت پہ ہی ہمیشہ کھڑی ملے گی
جلیں گے شب بھر ہوس کی آتش میں دو بدن ، پھر
کسی کو کچرے میں اک محبت پڑی ملے گی
پتہ خوشی کا میں جانتا ہوں ، تمہیں بتاؤں؟
فلانے جنگل میں جاؤ اک جھونپڑی ملے گی

26
مجھ پہ نا مہربان چلتی ہے
عمر سے کھینچ تان چلتی ہے
میری نس نس میں دوڑتا ہے عشق
جیسے رگ رگ میں جان چلتی ہے
قدم ایسے اٹھا مری جانب
جیسے فر فر زبان چلتی ہے

28
مرے سلطانِ مدینہ مرے مکی مدنی
کیجے مہمانِ مدینہ مرے مکی مدنی
نخلِ امید مرا زرد ہوا جاتا ہے
کوئی امکانِ مدینہ ؟ مرے مکی مدنی
آپ کے پائے مقدس نے بڑھائی آقا
سَطوت و شانِ مدینہ مرے مکی مدنی

23
کبھی شمس الضحیٰ کہیے ، کبھی بدر الدجیٰ کہیے
حبیبِ خالقِ کون و مکاں ہیں مصطفیٰ کہیے
انہی کی راجدھانی میں دیے مولا نے خشک و تر
وہی حق دار ہیں ان کو شہِ ارض و سما کہیے
ہے ان کی مدح خوانی اصل میں رب کی ثنا خوانی
سو جائز ہے کہ ان کی نعت کو حمدِ خدا کہیے

196
دست بستہ سرِ امکان خوشی آتی ہے
بامِ تخئیل پہ جب مدحِ نبی آتی ہے
روح پاتی ہے جِلا نعتِ نبی کے باعث
مصرعِ جان میں بے ساختگی آتی ہے
خود بخود چشمِ صبا بہرِ ادب جھک جائے
سامنے جوں ہی مدینے کی گلی آتی ہے

18
غلامو! خلد کا رستہ چلو کشادہ کریں
حدیثِ رحمتِ عالم سے استفادہ کریں
جہاں سے ان کی زیارت مدام ہوتی رہے
ہم اپنی آنکھ وہاں کاش ایستادہ کریں
گواہی عشق کی دے ایک اک قدم اپنا
سفر بقیع کا اک روز پا پیادہ کریں

17
قصۂِ کُن کا عنوانِ موزوں تریں ، منظرِ دہر کا مدعا مصطفیٰ
طوطیِ خوش نوا طائرِ خلد کا نغمۂِ جاں فزا مصطفیٰ مصطفیٰ
غمزدوں عاصیوں بے نواؤں کا ہیں آسرا اے حبیبِ خدا آپ ہی
رحمتِ دو جہاں مونسِ بے کساں کون ہے آپ کے ماسوا مصطفیٰ
کس جگہ کون کیسے گرے گا سرِ بدر پہلے سے بتلا دیا آپ نے
اور شاہد ہیں اس پر زمین و فلک آپ نے جو کہا ہو گیا مصطفیٰ

21
ایک اک کر کے مجھ میں ہوئے ضم تمام
عمر کے ساتھ بڑھنے لگے غم تمام
ہاتھ ، پاؤں ، جبیں ہوں کہ رخسار و لب
پھول ہیں اصل میں وہ مجسم تمام
ہنس رہے ہیں مرے حال پر سارے عکس
پھٹ نہ جائے مرے ہاتھوں البم تمام

25
پھول کب خار کو سمجھتے ہیں
یار ہی یار کو سمجھتے ہیں
بھول جاتے ہیں اپنا جرم سبھی
غلط اخبار کو سمجھتے ہیں
سر جھکانا قبول کیوں کرتے
رسمِ دربار کو سمجھتے ہیں

27
لیتی ہے بوسۂِ لب و عارض نیاز سے
جلتا ہے جی مرا تری زلفِ دراز سے
اے ابرِ نارسائی تُو یکبارگی برس
تنگ آ گیا ہوں روز کی اس تگ و تاز سے
پہنچا ہوں ایک جسم سے بے جسم حُسن تک
منزل حقیقی مل گئی راہِ مجاز سے

32
پرندِ آرزو کی یوں چہک زیادہ ہے
کہ پھڑپھڑانے کی اس میں للک زیادہ ہے
یہ رعبِ حسن نہیں احترام ہے ، مجھ میں
نہیں ہے خوف زیادہ ، جھجھک زیادہ ہے
حصارِ چشم سے باہر نکل نہ جائے غم
رہے خیال ، نہ جائے چھلک ، زیادہ ہے

21
تمام دوستوں کے سنگ مسکراتا ہوا
میں خود کو دیکھوں مدینے کی سمت جاتا ہوا
ہزاروں آپ کے احسان ہیں شفیعِ اُمم
کسی نے آپ کو دیکھا نہیں جتاتا ہوا
گلے لگا لیا آخر خیالِ طیبہ نے
اکیلا رہ گیا تھا ہاتھ جب ہلاتا ہوا

29
تو کیوں نہ دامنِ حُسین تھامے کائنات
حُسین بالیقیں ہیں جب امامِ کائنات
درود بھیجتا ہے آسمان ہر گھڑی
مساء و صبح ان پہ ہے سلامِ کائنات
سبب ہیں رنگ و بوئے گلستانِ دہر کا
ہوا انہی کے واسطے قیامِ کائنات

25
درِ سرکار سے آتے نہیں خالی واپس
لوٹنا چاہتے ہیں پھر بھی سوالی واپس
مضمحل ہوتے نہیں زائرِ طیبہ ورنہ
کھینچتی ہوگی سنہری انہیں جالی واپس
تحفۂِ ہجرِ مدینہ ہے نمِ چشم ، طبیب
اپنی آنکھوں کی مجھے چاہیے لالی واپس

28
زیست کے ماتھے پہ اک دھبّا ہے
وقت جو بعد ترے گزرا ہے
نہر دریا سے ملی ہے ام شب
چاند بھی دیکھ کے مسکایا ہے
مسئلہ یہ ہے محبت نہ رہی
فاصلہ اب بھی قدم بھر کا ہے

139
بہتری ہر آزمائش میں ہے پیدا کی گئی
مصلحت پوشیدہ شورش میں ہے پیدا کی گئی
آپ اس بیٹی کے دکھ کی کیفیت سمجھیں ذرا
جو کسی بیٹے کی خواہش میں ہے پیدا کی گئی
لہلہاتی فصلِ گل کے وہ مقدر میں نہیں
جو کشش تجھ لب کی جنبش میں ہے پیدا کی گئی

88
ترا بھرم تری اوقات سے زیادہ ہے
وگرنہ میرا ملاقات کا ارادہ ہے
جواہرات کی چوری سے خوف آنے لگا
تنِ حسیں پہ ضرورت سے کم لبادہ ہے
مرا خیال ہٹا ہی نہیں کبھی تجھ سے
یہ شاعری تری صورت سے استفادہ ہے

157
سارے دریا روٹھ گئے ہیں اپنے اپنے پانی سے
دشت کے اندر بہتی نہر کی چھوٹی سی نادانی سے
کل اک پیڑ کے اوپر چند پرندے باتیں کر رہے تھے
اتنا گرنے کی امید نہ تھی نوعِ انسانی سے
ممکن ہے پھر ان دونوں پر کھلنے کا مفہوم کھلے
میری مشکل ٹکرائے گی جب تیری آسانی سے

104
اتنی اجلی دنیا ہے ، تو حیرت ہے
آدمی من کا میلا ہے ، تو حیرت ہے
دل دیوار میں کھڑکی ہے تو ہوگی پر
کھڑکی ہی دروازہ ہے تو حیرت ہے
روشنی ان آنکھوں کے بوسے لیتی ہے
اچھا؟ واقعی ایسا ہے تو حیرت ہے

115
کہیں سے آیا ہے رشتہ تمہارے بارے میں
لگا یونہی نہیں دھڑکا تمہارے بارے میں
مجھے تو خوف سا آنے لگا ہے رستے سے
کہ پوچھ لیتا ہے سیدھا تمہارے بارے میں
اس ایک خواب کا تاوان بھر رہے ہیں ہم
وہ ایک خواب جو دیکھا تمہارے بارے میں

142
تم لوگ بول سکتے ہو ، بیٹھے ہو چھاؤں میں
ہم لوگ قید رہ گئے اپنی اناؤں میں
تجھ بن کرے گی تنگ مجھے موت کی پری
دکھتا رہے گا جسم قضا کا ہواؤں میں
ممکن نہیں ہے وقت سے پیچھے رہے کہ جو
چلتا رہے زمیں پہ سمے کی کھڑاؤں میں

91
عفو کے خواستگار روتے ہیں
شاہ کے سوگوار روتے ہیں
ذکر کرتا ہوں ابنِ حیدر کا
لفظ زار و قطار روتے ہیں
لختِ شیرِ خدا رہے محصور
اس خطا پر حصار روتے ہیں

171
عمر سے کرتے محبت ، عمر عمر کرتے
کبھی نہ کرتے عداوت عمر عمر کرتے
عدو عمر کے ہیں دشمن رسولِ اکرم کے
نبی کے اہلِ مودت عمر عمر کرتے
یہ کم شناس نہ سمجھیں گے شانِ فاروقی
ذرا جو ہوتی بصیرت عمر عمر کرتے

114
برائے عام تعارف مرا کرائے گا
دہر مدام تعارف مرا کرائے گا
کبھی چلو تو سہی تم جنوں کے رستے پر
ہر اک مقام تعارف مرا کرائے گا
زباں خموش رہی تو یہ لفظ بولیں گے
مرا کلام تعارف مرا کرائے گا

121
جب کبھی سر کو تم جھکاؤ گے
ہم کو دل کے قریب پاؤ گے
موسموں سا مزاج رکھتے ہو
عہدِ الفت کہاں نبھاؤ گے
آپ سے گر سوالِ وصل کروں
سر کو اثبات میں ہلاؤ گے؟

102
آنکھوں کو پیار کی یہ سزا دینی چاہیے
شمعِ امیدِ وصل بجھا دینی چاہیے
اے کاش ان کے دل میں کبھی آئے یہ خیال
ہم کو مئے وصال پلا دینی چاہیے
امید عدل گرچہ نہیں منصفین سے
زنجیرِ عدل پھر بھی ہلا دینی چاہیے

113
اصلیُ النسل تو شیطاں کے مقابل آئیں
نسلِ شیطاں ہیں جو یزداں کے مقابل آئیں
پارسائی کا بھرم ان کی یقیناً کھل جائے
گر فرشتے کبھی انساں کے مقابل آئیں
حُسنِ حورانِ جناں کا نہیں منکر لیکن
ان میں ہمت ہے تو جاناں کے مقابل آئیں

148
الاؤ نفرتوں کا جب تلک مدھم نہیں ہوتا
دلوں میں فاصلہ میرے عزیزو کم نہیں ہوتا
یہ ممکن ہے کہ ہو جائے مناسب فیصلہ لیکن
کبھی جھکتا نہیں ہوں میں ، کبھی وہ خم نہیں ہوتا
غلط کہتے ہیں ، جھوٹے ہیں ، فقط بکواس کرتے ہیں
گزرتا وقت زخموں کا کبھی مرہم نہیں ہوتا

103
ضبط کرتا آیا ہوں میں پر اب ضروری ہے
تشنگی مٹانے کو جامِ لب ضروری ہے
شعر تو سناتا میں دیکھ دیکھ کر تجھ کو
کیا کروں بزرگوں کا بھی ادب ضروری ہے
دم کرا کے آیا ہوں ہیر کے مجاور سے
تیرا خواب میں آنا آج شب ضروری ہے

117
کھسر پھسر ہی کریں گے ہمارے بارے لوگ
کچھ اور کر نہیں سکتے حسد کے مارے لوگ
ہمیں تو ایک یہی بات لطف دیتی ہے
تمہیں ہمارا سمجھتے ہیں اب تمہارے لوگ
کئی کی عید سے پہلے ہی عید ہو گئی ہے
ہلال ڈھونڈتے دیکھے ہیں کچھ ستارے لوگ

267
عشق میں سارے اسی انعام کے مالک بنے
ہر قدم تہمت لگی ، آلام کے مالک بنے
اہلِ الفت نے غزل لکھی ، دلوں میں گھر کیا
اہلِ زر تو مال سے اجسام کے مالک بنے
نام رکھا اپنی بیٹی کا اسی کے نام پر
اس طرح ہم کم سے کم اس نام کے مالک بنے

202
کچھ نہ بگڑا مرا نصیحت سے
باز آیا نہیں محبت سے
عشق نگری سے لوٹ آیا ہوں
آپ کے ایک حکم ِ ہجرت سے
یہ خدائی عطا ہے میرے بھائی
پیار ملتا نہیں ہے دولت سے

139
دغا مجھ سے کیا جب روشنی نے
تری آنکھوں کے یاد آئے نگینے
پتہ ہے ؟ میرا ویزہ لگ گیا ہے
بہت صدمہ دیا ہے اس خوشی نے
ہم اک مدت کے بعد ایسے ملے کہ
وہ مجھ کو دیکھ کر بولی ، کمینے!

104
حسن کی آنکھیں کھل جائیں تو اندھا پانی ہو جاتا ہے
اس کے جسم پہ پڑ کر شرم سے دوہرا پانی ہو جاتا ہے
اس کے ساحل پر چلنے سے ہو جاتی ہے ریت گلاب
چھو کر پاؤں کھارا پانی میٹھا پانی ہو جاتا ہے
زلفوں کو چھوتے ہی پانی خمر کی وادی میں ڈوبے
ہونٹوں کو چومے تو ان کا رسیا پانی ہو جاتا ہے

82
پی کر بھی ترے نام کو افشا نہ کیا ہے
رسوا ہوں مگر تجھ کو تو رسوا نہ کیا ہے
اس دل پہ ستم آپ نے کیا کیا نہ کیا ہے
شکوہ نہیں اچھا مگر اچھا نہ کیا ہے
غیروں سے لیے قرض ، رکھا جان کو گروی
یاروں کو شکایت ہے کہ خرچہ نہ کیا ہے

87
بہتر یہی لگا سو مرے یار لکھ دیا
منبع مہک کا آپ کے رخسار لکھ دیا
پایا نہ کوئی جرم جو اس نے مرے کنے
جرمِ عدم گنہ کا خطا کار لکھ دیا
رکھ کر مری سرشت میں خوئے شگفتگی
کاتب نے راہِ زیست کو پر خار لکھ دیا

128
جب تمہارے بلد میں رہنا پڑا
ایک سیلِ حسد میں رہنا پڑا
احتجاجاً جنون چھوڑ دیا
انتقاماً خرد میں رہنا پڑا
ایک رومانوی غزل کے لیے
آپ کے خال و خد میں رہنا پڑا

91
زادِ رہ پاس نہ معلوم کدھر جانا ہے
ہم سفر کوئی نہ رہ رو ہے ، مگر جانا ہے
آپ کہتے تھے ہمیں پھول سو لازم ٹھہرا
پھول کو ٹوٹ کے ہر سمت بکھر جانا ہے
آج ہے اس مہِ کامل کی زیارت کرنی
کوچہ ءِ یار میں پھر بارِ دگر جانا ہے

147
ممانعت ہے محبت کی سو حذر کرنا
عداوتوں کی اجازت ہے عمر بھر کرنا
تمہارا گاؤں نہیں ہے یہ شہر ہے لڑکی
یہاں بھروسہ کسی پر بھی سوچ کر کرنا
خطوط پھینک چکا ہوں مگر یہ عادت ہے
دراز کھول کے چیزیں ادھر ادھر کرنا

106
جس پہ جچتا کوئی استعارہ نہ ہو
کوئی دنیا میں اتنا بھی پیارا نہ ہو
بے حجاب ان کو دیکھیں نہ کیوں ایک ٹک
کیا خبر یہ نظارہ دوبارہ نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے منزل پکارے ہمیں
عین ممکن ہے اس کو گوارہ نہ ہو

0
75
آسماں ہے دسترس میں ، ہے زمیں پر دسترس
کیا کروں محبوب کو بھی ہے نہیں پر دسترس
خود کسی کی دسترس میں یہ کبھی آتا نہیں
ہے مکانِ دل کو لیکن ہر مکیں پر دسترس
ایسا لگتا ہے کہ جیسے دسترس میں چاند ہے
آج کل ہے ایک ایسی مہ جبیں پر دسترس

0
101
کر تجھے روز یاد لیتا ہوں
دل کو کر ایسے شاد لیتا ہوں
جب کہوں جزوِ زندگی تم ہو
جزو سے کُل مراد لیتا ہوں
سچ کہوں تو گناہ لگتا ہے
سانس جو اس کے بعد لیتا ہوں

0
135
دشمن کیوں ہے آج وہ اپنی بیٹی کی آزادی کی
جس نے گھر سے بھاگ کے اپنی مرضی سے تھی شادی کی
جس دن تیرا والد تیرے لہجے سے ڈر جائے گا
پہلی اینٹ اسی دن رکھی جائے گی بربادی کی
میری پشت پہ اینٹوں میں کچھ اور اضافہ کر دو تم
آج مجھے اک خواہش پوری کرنی ہے شہزادی کی

0
72
جس وقت بھی وہ چاند کو دیکھے گا پلٹ کر
چپ چاپ قمر ابر میں چھپ جائے گا ہٹ کر
ہمراہ بھلے عقل کو رکھ راہِ جنوں میں
پر جیسا وہ کرنے کو کہے ، اس کا الٹ کر
کر صرفِ نظر آبلہ ءِ پا سے وفا کیش
منزل کا نشاں پائے گا خاروں سے نبٹ کر

0
109
اشاروں ہی اشاروں میں تکلم ہوتا جاتا ہے
مزاجِ یار برہم اور برہم ہوتا جاتا ہے
گزارش ہے کہ پھر سے آ کے زخمِ دل کو تازہ کر
پرانا زخم دھیرے دھیرے مدھم ہوتا جاتا ہے
عجب قصہ ہے آنکھوں سے ان آنکھوں کے تصادم کا
محبت بڑھتی ہے جوں جوں تصادم ہوتا جاتا ہے

0
100
ہمیں اور کچھ مت کھلائے پلائے
محبت جسے ہے وہ چائے پلائے
خدایا مجھے اس کی قربت عطا کر
کڑک چائے جو کہ بنائے ، پلائے
وہ جیسے کمرشل میں ہم دیکھتے ہیں
کبھی اس طرح کوئی گائے ، پلائے

0
61
گو واقفِ سر نہاں تو بھی نہیں میں بھی نہیں
لیکن جہاں میں رائگاں تو بھی نہیں میں بھی نہیں
چاہیں اگر تو لمحہ بھر میں رنجشیں کافور ہوں
اس درجہ لیکن مہرباں تُو بھی نہیں میں بھی نہیں
اپنی انا کے خول میں کب تک بتا سمٹے رہیں
کیوں حالِ دل کرتا بیاں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

0
83
پاس بھی بلاتے ہیں ، نام بھی نہیں لیتے
اور پاس جائیں تو کام بھی نہیں لیتے
ایک ہم کہ ساری عمر ان پہ وارنا چاہیں
ایک وہ کہ ہم سے اک شام بھی نہیں لیتے
ہم کچھ ایسے تاجر ہیں ، کاروبار الفت میں
خود کو بیچ دیتے ہیں ، دام بھی نہیں لیتے

0
154
اس کے دیکھے سے بھی گل کھِلا ہی نہیں
اس لیے موسموں سے گلہ ہی نہیں
اولیں جام سے ہی بہک جائے جو
ایسے کم ظرف کو تو پِلا ہی نہیں
مجھ سے ملنے وہ آیا بچھڑتے سمے
جانے کیا سوچ کر میں مِلا ہی نہیں

0
88
حالتِ سوزِ دروں کی ترجمانی چاہیے
خامہ ءِ محوِ طرب کی مہربانی چاہیے
دشتِ ہجراں میں بھٹک کر گم رہِ منزل ہوا
تشنہ ءِ دیدار آنکھوں کو نشانی چاہیے
بے خودی ، دیوانگی ، آشفتگی کی زد میں ہوں
اور اس بحرِ فنا میں بے کرانی چاہیے

0
199
اس نے گجرے منگائے پھولوں کے
بھاؤ سب نے بڑھائے پھولوں کے
اس کے بارے میں سوچنا چاہا
کچھ نہ سوجھا سوائے پھولوں کے
ایک گل رخ کے تذکرے کے لیے
ڈھونڈ کر لفظ لائے پھولوں کے

0
308
وہ رشکِ گل بصد اصرار دے گا
مگر خوشبو نہ دے گا ، خار دے گا
کرے گا قید ہم کو دل مکاں میں
ہمارے ہاتھ پھر پرکار دے گا
تغافل سہہ لیا جاتا پر اس کا
پلٹ کر دیکھ لینا مار دے گا

0
124
جب سے ان کو خواب سناتے دیکھا ہے
تعبیروں کو ناز اٹھاتے دیکھا ہے
کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آیا
اس کو گھاٹ سے پانی لاتے دیکھا ہے
جانے کیا حالت ہوگی اس سے مل کر
جس کو خواب میں آتے جاتے دیکھا ہے

0
100
رستہ جو کیا تم نے مری جان علیحدہ
اب بیٹھے رہو ہو کے پشیمان علیحدہ
اک شوخ تبسم سے کیا ہم کو دوانہ
اک ہوش گیا دوسرا احسان علیحدہ
غرقاب کیا گال کے اُس شوخ بھنور نے
جذبات میں اٹھتے ہوئے طوفان علیحدہ

0
85
حسن کے در پر کوئی حاجب نہیں
پھر بھی کوئی دید کا طالب نہیں
کب کھُلی پٹی ہوس کی آنکھ سے
جسم کہتا رہ گیا! صاحب! نہیں
حضرتِ انسان کے اعمال دیکھ
کیا یہی شیطان کے نائب نہیں؟

0
158
بس یار کچھ گذارہ ہے ماہر نہیں ہوں میں
تحدیثِ حُسن کرتا ہوں ، شاعر نہیں ہوں میں
مؤمن کو لمسِ یار کی نعمت سے کیا گریز؟
گرچہ گناہ گار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں
لے جائیے جناب یہ بوسے کہ مفت ہیں
عاشق ہوں میں خلوص کا تاجر نہیں ہوں میں

0
187
وقتِ رخصت مری ماں نے مرا ماتھا چوما
منزلوں نے تبھی بڑھ کر مرا تلوا چوما
دی مؤذن کو دوا نیند کی اور پھر کل شب
ہم نے جی بھر کے تمہیں خواب میں دیکھا چوما
جس طرح قیمتی شے کو کوئی مفلس دیکھے
آنکھوں آنکھوں میں تجھے ہم نے سراہا ، چوما

0
120
دل دائمی حزیں کو مسرور کر دیا ہے
گو لمس کی تھکن نے ہمیں چور کر دیا ہے
اس آنکھ کے بھنور سے ہم بچ گئے ہیں لیکن
اس تل کی دل کشی نے محصور کر دیا ہے
تاثیر پوچھیے مت اس شوخ لب کی جس نے
آبِ محض کو بنتِ انگور کر دیا ہے

0
69
تم نے صرف یہ دیکھا آنکھیں نم اضافی ہیں
لے رہا ہوں میں جتنے سارے دم اضافی ہیں
تجھ کو تکنے والے سب آنکھ میں ہیں کھو جاتے
جیسے تیرے باقی سب زیر و بم اضافی ہیں
جلد ہی ہمیں سولی پر چڑھایا جائے گا
مصلحت کی دنیا میں یار ہم اضافی ہیں

0
184
تمام جسم کے اعضا میں پھول کھلتے ہیں
کسی نظر کی تمنا میں پھول کھلتے ہیں
اسی کے اذن سے آباد ہیں مساجد سب
رضا سے جس کی کلیسا میں پھول کھلتے ہیں
ازل سے جاری ہے اُن پر سلام اور درود
ازل سے اس لیے دنیا میں پھول کھلتے ہیں

0
115
حسن کو بے مہار مت کرنا
عشق سر پر سوار مت کرنا
نم رہے آنکھ میں ، مگر محدود
جھیل کو آبشار مت کرنا
قتل سے انتظار مشکل ہے
تم مرا انتظار مت کرنا

0
116
بھرم رہنے دو ، مت چھیڑو ملن کی رات کا قصہ
پریشاں زلف کی باتیں ، دل و جزبات کا قصہ
نہ پوچھو کیفیت مجھ سے خمارِ لمسِ جاناں کی
بیاں کر ہی نہیں سکتا میں ان لمحات کا قصہ
چلو مانا ہمارے میں نہیں ہے پیار کا رشتہ
مگر پھر کیا ہے آنکھوں سے تری برسات کا قصہ

0
109
ایک دل ہے وہاں منتظر ، جاؤں میں
راہبر راہ کر مختصر ، جاؤں میں
شوقِ آوارگی دے اجازت مجھے
دے اجازت مجھے اپنے گھر جاؤں میں
کر رہا بھی نہیں میری چارہ گری
چاہتا بھی نہیں چارہ گر جاؤں میں

0
73
تمہارا ہوتے ہوئے بھی تم سے جدا رہا ہوں
اور اس مرض میں کئی برس مبتلا رہا ہوں
متاعِ عمرِ رواں کچھ ایسے لٹا رہا ہوں
کسی کی خاطر کسی کے خوابوں میں آرہا ہوں
مری جفا کے ہر اک محلے پہ دسترس ہے
میں ایک مدت اسیرِ دشتِ وفا رہا ہوں

0
105
اس طرح ہوتی نہ پسپائی فصیلِ شہر پر
نیند کی دیوی تھی چِلائی فصیلِ شہر پر
کھوجتا ہوں دشتِ الفت میں کوئی شہرِ وفا
ختم ہوگی دشت پیمائی فصیلِ شہر پر
سنسنی پھیلی صفوفِ دشمنانِ عشق میں
دیکھ کر اپنی پزیرائی فصیلِ شہر پر

0
101
اپنے کمرے میں چار سُو پھیلی
تیری خوشبُو سے جاں چھڑا لی تھی
تیرے نامے جلا چکا تھا میں
تیرے تحفے ، کتاب ، گلدستے
ایک اک کر کے سب گما ڈالے
تیری چُوڑی سنبھال رکھی تھی

0
101
ہمیشہ عہدِ وفا نبھائیں گے ، چوم لیں گے
خفا ہوا تو اسے منائیں گے ، چوم لیں گے
انہوں نے رسمی سلام پر اکتفا کیا ہے
ہمیں لگا تھا گلے لگائیں گے ، چوم لیں گے
گلاب تو پھر گلاب ہے اس گلی کے کانٹے
بھی اپنی آنکھوں میں ہم بسائیں گے چوم لیں گے

0
113
سب گلے شکوے برابر ہو گئے
اور ان کے لب میسر ہو گئے
دیکھ کر میری نگاہِ شوق وہ
شرم کے مارے ٹماٹر ہو گئے
راہ چلتے ہم سے وہ ٹکڑا گئے
جسم و جاں یوں کیف آور ہو گئے

0
126
تقریر غلط ، نعرہ ءِ تکبیر غلط ہے
باطل کے لیے اٹھے تو شمشیر غلط ہے
عکاس ترے فن سے شکایت نہیں لیکن
ہنستی جو بنائی مری تصویر غلط ہے
عشاق پہ لازم ہے کہ ہوں پیکرِ تسلیم
دل بستی میں اوہام کی تعمیر غلط ہے

0
78
تمہارا عہدہ و نام و نسب اضافی ہے
تم اس کے شہر سے آئے ہوئے ہو! کافی ہے
وہ حور ہے کہ نہیں ہے ، گلاب ہے کہ تراب
یہ مسئلہ ابھی لوگوں میں اختلافی ہے
نہ جائے کوئی گھڑی اس کے ورد سے خالی
ہر ایک رنج و محن میں وہ اسم شافی ہے

0
201
رہے ہیں پہلے بہت برس آب و گل سبوتاژ
گرا کے برقِ جفا نہ کر کشت دل سبوتاژ
گنوا کے رختِ فراق پائی ہے شام قربت
جسے تغافل کرے ترا مستقل سبوتاژ
چھلک رہا تھا غرور ان کی ہر اک ادا سے
ترے تبسم سے گل ہوئے ہیں خجل سبوتاژ

0
75
کلی کھل کر ابھی مہکی نہیں ہے
ہمیں بھی وصل کی جلدی نہیں ہے
مسلسل حُسن کو تکنے کی عادت
پسندیدہ تو ہے اچھی نہیں ہے
لب و رخسار دیکھے پی رہا ہوں
وگرنہ چائے میں چینی نہیں ہے

1
221
اس کے دیکھے سے بھی گل کھِلا ہی نہیں
اس لیے موسموں سے گلہ ہی نہیں
اولیں جام سے ہی بہک جائے جو
ایسے کم ظرف کو تو پِلا ہی نہیں
مجھ سے ملنے وہ آیا بچھڑتے سمے
جانے کیا سوچ کر میں مِلا ہی نہیں

0
67
آپ نگاہِ مست سے سنگ کو آب کیجیے
تھامیے آب ہاتھ میں اور شراب کیجیے
کارِ وفا کا جب نہیں کوئی صلہ جنابِ عشق
عبد نیا تلاشیے، میرا حساب کیجیے
آ ہی گئے ہیں آپ تو اتنا کرم کہ دو قدم
چل کے ہمارے ساتھ دل سب کے کباب کیجیے

0
109
جہاں شعر میرے مجسم ملیں گے
وہاں گنگ سب ابن آدم ملیں گے
رواں سال بھی پائے رنج و الم ،اب
نیا سال آیا، نئے غم ملیں گے
مہکتے رہیں گے مسامِ بدن بھی
اگر لمس کے پھول پیہم ملیں گے

0
81
ہم اگر ڈیٹ پر بھی جائیں گے
لوگ شادی شدہ ہی سمجھیں گے
آؤ! مل کر گزاریں کوئی شام
اپنے بچوں کے نام سوچیں گے
تم ملے تو سلام سے پہلے
ہم نگاہوں سے تم کو چومیں گے

0
126
جگر میں آگ بھڑکانے لگی ہے
کسی کی یاد پھر آنے لگی ہے
مریض عشق بنتا جا رہا ہوں
طبیعت آپ پر آنے لگی ہے
اداسی پی رہی ہے خون میرا
بلائے ہجر جاں کھانے لگی ہے

0
79
میں نے کچھ الفاظ لکھے اور فیصلہ اس پر چھوڑ دیا
اس نے وہ الفاظ پڑھے اور چپکے سے گھر چھوڑ دیا
تب سے میرے ہاتھ کو تتلی پھول سمجھ کر بیٹھی ہے
جب سے تم نے ہاتھ کو میرے ہونٹ لگا کر چھوڑ دیا
کہساروں کے بیچ سنہری جھیل کنارے میں اور تم
پھر میں نے آنکھیں کھولیں اور سارا منظر چھوڑ دیا

0
88
سیاہ شب نے شجر لپیٹا
مسافروں نے سفر لپیٹا
بچھا کے یادوں کا ایک بستر
فراق شب کی بسر ، لپیٹا
زمیں پہ مدت ہوئی مکمل
کرائے پر تھے ، سو گھر لپیٹا

0
113
چہرہ ہوا گلنار ، بڑھا رنگِ حیا اور
ہاتھوں کو ترے چوم کے جب میں نے کہا! اور؟
امروز کریں وعدہ ءِ توصیل کو ایفاء
ہوتا ہے تو ہو جائے کوئی ہم سے خفا اور
آ! اتنا قریب آ! کہ بدن جزوِ بدن ہو
اے دوست! مئے لمس پلا اور ، ذرا اور

0
76
آنکھیں نہیں ہیں؟ دل نہیں؟ یا پھر جگر نہیں؟
سب کچھ ہے میرے پاس تو پھر کر حذر نہیں
اب آ چکے ہیں آپ تو رہ جائیے یہیں
دل کو مقام کیجیے صاحب ڈگر نہیں
موتی ہیں بے شمار بھلے بحر عشق میں
بہتر مگر یہی ہے کہ اس میں اتر نہیں

0
138
تیری بانہوں کی پناہوں سے جو مینٹل بھاگے
دفع ہو ، شہر سے نکلے ، کسی جنگل بھاگے
وہ اگر دھوپ میں بارش کی دعائیں مانگے
آئیں گے اس کے لیے دیکھنا بادل بھاگے
اک جھلک دیکھتے ہی روڈ پہ جانے کتنے
چپلیں چھوڑ کے پیچھے ترے پیدل بھاگے

0
124
اٹھتی ہے میرے دل میں غم کی کسک ابھی بھی
جب دیکھ لوں کہیں پر اس کی جھلک ابھی بھی
جس کوہ پر کبھی ہم بیٹھےتھے لمحہ بھر کو
اس کو مدام جھک کر چومے فلک ابھی بھی
مدت ہوئی کسی دن گزرا تھا اس گلی سے
مدہوش کر رہی ہے ہم کو مہک ابھی بھی

0
178
ہجر ہم کو ڈستا ہے ، یاد خوں رلاتی ہے
فرقوں کے موسم کی ہر ادا ستاتی ہے
چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھنا نہیں اچھا
تم جو روٹھ جاتے ہو سانس تھم سی جاتی ہے
یوں تو اس پری وش کی ہر ادا قیامت ہے
پر نگاہِ ناز اس کی برق جو گراتی ہے

0
96
فراق رت میں ہوئی جب ملال کی بارش
انہی دنوں میں ہوئی پورے سال کی بارش
یہ گلستانِ تخیل فنا نہ ہو جائے
زمینِ فکر پہ برسا جمال کی بارش
ترے سکوت سے چرکے لگیں سماعت پر
ترے کلام سے ہو اندمال کی بارش

0
125
آئنے بے لباس تکتے ہیں
ہم بچارے لباس تکتے ہیں
دیکھتے ہیں کچھ اور اہلِ عشق
عقل والے لباس تکتے ہیں
ہائے وہ جسم جس کو حسرت سے
سارے اچھے لباس تکتے ہیں

0
95
رفاقت کی تمنا ہو تو تنہا چھوڑ جاتے ہیں
اجالے چھین کر سارے اندھیرا چھوڑ جاتے ہیں
میں کہہ تو دوں اسے اپنا مگر یہ سوچ کر چپ ہوں
کہ اپنے ہی مجھے اکثر اکیلا چھوڑ جاتے ہیں
مداوائے الم سمجھا جنہیں بھی اس زمانے میں
وہ دے کر درد کا اک اور صحرا چھوڑ جاتے ہیں

0
115
زندگانی کے ہر باب میں آنکھ ہے
آنکھ میں خواب ہے ، خواب میں آنکھ ہے
جسم اپنا ہے دو کشتیوں میں سوار
سندھ میں دل ہے پنجاب میں آنکھ ہے
چاند کو بھی وہ تکتے نہیں بے حجاب
ان کو لگتا ہے مہتاب میں آنکھ ہے

0
113
کہا تھا ناں ترا ہو کر رہوں گا
تو اب کیسے جدا ہو کر رہوں گا
میں اک سوکھا شجر ہوں جانتا ہوں
تو چھو لے تو ہرا ہو کر رہوں گا
کروں گا مس تجھے اور پھر ہمیشہ
معطر پھول سا ہو کر رہوں گا

0
132
ایسا نہ سمجھ طاقتِ گویائی نہیں ہے
فطرت میں مگر میری خود آرائی نہیں ہے
وہ شخص بتا سکتا نہیں حسن کا مطلب
جس شخص نے دیکھی تری انگڑائی نہیں ہے
اچھا ہے مگر آپ سے اچھا تو نہیں گل
رعنا ہے مگر آپ سی رعنائی نہیں ہے

0
79
اداس آبشار ، کوہسار بھی اداس ہیں
درونِ کاشمیرِ دل چنار بھی اداس ہیں
گلاب ہیں اداس کہ تمہارا لمس چھن گیا
گریز پا جو تم ہوئے تو خار بھی اداس ہیں
تمہارے پاؤں چومنے کو چھت کوئی ترس گئی
سکھائے جن پہ پیرہن وہ تار بھی اداس ہیں

0
115
تاب لا سکتے ہیں گر ان کی میاں تو دیکھیے
ان کی آنکھوں سے لپکتی بجلیاں تو دیکھیے
دندناتی پھر رہی ہیں حسن کے مینار پر
آپ زلفِ یار کی بد مستیاں تو دیکھیے
آنے والی ہے بہارِ لمس باغِ جسم پر
عارضِ جاناں کی ہائے سرخیاں تو دیکھیے

0
88
مت کرے اب وہ پیش و پس جائے
اس کو جانا ہی ہے تو بس جائے
یہ کہاں کی بھلا شرافت ہے
بندہ ملنے کو ہی ترس جائے
اس مقدس شباب سے کہہ دو
میں نے کر لی نگاہ مَس جائے

0
123
رقیبوں پر تمہارے جب کرم محسوس کرتا ہوں
میں اپنی دشت آنکھوں کو بھی نم محسوس کرتا ہوں
میں بھی انسان ہوں پتھر نہیں ہوں اے مرے ہم دم
میں چپ رہتا ہوں پر سارے ستم محسوس کرتا ہوں
مجھے ڈر ہے کہیں مروا نہ دے حساسیت مجھ کو
ہر اک انساں کے غم کو اپنا غم محسوس کرتا ہوں

0
105
کچھ بجز اس کے خدا سے کبھی خواہش نہیں کی
وہ جو کہتا ہے کبھی آپ نے کوشش نہیں کی
اس کو مانگا تو نہیں مانگی دعائے جنت
اس کو دیکھا تو کسی اور کی خواہش نہیں کی
اس فسوں گر نے جونہی پھونکا طلسمِ دیدار
دھڑکنیں تھم سی گئیں، آنکھ نے جنبش نہیں کی

0
108
دیکھا تھا جس نے دانت کے نیچے دبا کے ہونٹ
بھڑکا گئے ہیں پیاس اسی اپسرا کے ہونٹ
میں نے سوالِ تشنگی اک خط میں جب کیا
بھیجے مجھے جواب میں اس نے بنا کے ہونٹ
لرزیں ذرا جو ہونٹ کوئی بات کرتے وقت
حسرت سے دیکھیں ایڑیاں اپنی اٹھا کے ہونٹ

0
113
دعائیں کرتا ، تمنا جسے بتاتا تھا
اگر نہ حال پہ ہنستا جسے بتاتا تھا
کجا گلاب کجا شوخی ءِ لبِ جاناں
نہیں ہے راکھ بھی سونا جسے بتاتا تھا
جوزخم اس نے ادھیڑے ہیں ٹھیک ہو چکے تھے
ہر اک مریض مسیحا جسے بتاتا تھا

0
80
فصیلِ قلب پہ قبضہ جمائے بیٹھا ہے
وہ ایک شخص جو میرا نہیں پرایا ہے
تمام شعر اسی کے رہینِ منت ہیں
مرے خیال پہ جس شخص کا اجارہ ہے
ہزار ذائقے ہیں اس بدن میں پوشیدہ
نہ صرف ترش نہ تیکھا نہ صرف میٹھا ہے

0
84
شمار کیجیے میرا بھی خاص لوگوں میں
کہ بانٹتا ہوں محبت کی پیاس لوگوں میں
وہ قہقہے نہ لگانے لگیں تو پھر کہنا
ہمارا ذکر تو چھیڑو اداس لوگوں میں
نصیب سامنے رکھتی جو اپنی بیٹی کا
برائی کرتی بہو کی نہ ساس لوگوں میں

0
111
ریشمی جال خوب صورت ہیں
آپ کے بال خوب صورت ہیں
کتنی دلکش ہیں آپ کی آنکھیں
آپ کے گال خوب صورت ہیں
سچ کہوں تو گلاب سے بڑھ کر
ہونٹ یہ لال خوب صورت ہیں

203
آپ سے گر نہ رابطہ ہوتا
حال دل کا بہت بُرا ہوتا
کاش مل جاتی یار کی تصویر
کچھ نہ کچھ دل کو آسرا ہوتا
تجھ کمر پر میں اک غزل لکھتا
جس کا باریک قافیہ ہوتا

0
119
وجودِ خیش خدائے سخن سمجھتے ہیں
ہمارے شہر میں دو چار لوگ ایسے ہیں
سکوت ان کا گراں بار ہے سماعت پر
سنا تھا ان کے تکلم سے پھول کھلتے ہیں
سماعتوں میں مہک گھولتے ہیں شعر ان کے
درونِ بزمِ ادب جو خموش بیٹھے ہیں

0
113
ہماری آنکھ ان سے کیا لڑی ہے
ہر اک ساعت قیامت کی گھڑی ہے
خطا چھوٹی سہی دیدارِ بے اذن
سزا لیکن بہت اس کی کڑی ہے
نہ مجھ سے چھینیے میرا تبسم
بہت مشکل سے یہ عادت پڑی ہے

0
103
کیوں ظلم کو سہتے ہو صدا کیوں نہیں دیتے
جو دل پہ گزرتی ہے بتا کیوں نہیں دیتے
ہر جور و ستم کس لیے سہہ جاتے ہو چپ چاپ
باطل کے محلات جلا کیوں نہیں دیتے
ہر بار ہی مجرم کو بچا لیتے ہیں منصف
ظالم کو سرِ عام سزا کیوں نہیں دیتے

0
140
نام اس پر تمہارا لکھا رہ گیا
تختۂِ دل تبھی تیرتا رہ گیا
تیرے گھر سادہ پانی پیا تھا کبھی
میرے ہونٹوں پہ وہ ذائقہ رہ گیا
سارے اسمائے نکرہ ہوئے کالعدم
حافظے میں بس اک معرفہ رہ گیا

0
75
گھومتے ہیں شہر میں جو لوگ بے پرواہ سے
مل رہا ہے فیض ان کو عشق کی درگاہ سے
حال کیا ہوگا حقیقت میں اگر وہ آ ملیں
گلستانِ جسم کھل اٹھتا ہے جب افواہ سے
عرضِ حالِ کربِ ہجرِ بے کراں ہے رائگاں
جب جوابِ عرض کا آغاز ہو اخّاہ سے

0
199
خیالِ یار میں مجھ کو یونہی مدہوش رہنے دو
نہ پوچھو رات کا قصہ، مجھے خاموش رہنے دو
بنا جس کے کہے جس کی میں سب باتیں سمجھتا ہوں
مجھے اس کے لیے یونہی ہمہ تن گوش رہنے دو
سُنایا وصل کا قصہ ، تو میرے یار یوں بولے
کہاں تم اور کہاں اس کی حسیں آغوش، رہنے دو

0
1152
بات ہوتی ہے تری تب ہی اثر رکھتے ہیں
قدر اشعار مرے کچھ بھی اگر رکھتے ہیں
زلف کی اوٹ میں ہے ایک شہابی صورت
یعنی اک رات کے سائے میں سحر رکھتے ہیں
لب و رخسار و جبیں دیکھنا دشوار مگر
ہم سرِ بزم ان آنکھوں پہ نظر رکھتے ہیں

0
142
اک شام باغ میں نئی کھلتی کلی ملی
خوشبو بھی اس کے پاؤں سے لپٹی ہوئی ملی
تصویرِ یار لگ گئی اک روز میرے ہاتھ
سمجھو مرے ہوئے کو نئی زندگی ملی
گردن کے دو تلوں کی ہوئی جوڑی آشکار
ان کا طواف کرتی ہوئی روشنی ملی

0
190
جسم جب تیر سے کمان ہوا
ہر تعلق بلائے جان ہوا
بے رخی نے جنم دیا ہے درد
ہجر کی گود میں جوان ہوا
میں بھی غمگین ہوں مگر جتنا
بعد تیرے مرا مکان ہوا

0
59
ادھڑ گیا ہے جو پہلے لگایا تھا پیوند
قریب آ مرے ، پھر سے لگا نیا پیوند
کسی غریب کے بوسیدہ پیرہن کی طرح
لگے ہوئے ہیں مرے دل پہ جا بجا پیوند
تمہارے ہجر نے روزن بنا دیا دل میں
تمہاری یاد نے آکر لگا دیا پیوند

0
94