Circle Image

قمر آسی

@Qamar_Aasi

زیست کے ماتھے پہ اک دھبّا ہے
وقت جو بعد ترے گزرا ہے
نہر دریا سے ملی ہے ام شب
چاند بھی دیکھ کے مسکایا ہے
مسئلہ یہ ہے محبت نہ رہی
فاصلہ اب بھی قدم بھر کا ہے

0
112
بہتری ہر آزمائش میں ہے پیدا کی گئی
مصلحت پوشیدہ شورش میں ہے پیدا کی گئی
آپ اس بیٹی کے دکھ کی کیفیت سمجھیں ذرا
جو کسی بیٹے کی خواہش میں ہے پیدا کی گئی
لہلہاتی فصلِ گل کے وہ مقدر میں نہیں
جو کشش تجھ لب کی جنبش میں ہے پیدا کی گئی

0
70
ترا بھرم تری اوقات سے زیادہ ہے
وگرنہ میرا ملاقات کا ارادہ ہے
جواہرات کی چوری سے خوف آنے لگا
تنِ حسیں پہ ضرورت سے کم لبادہ ہے
مرا خیال ہٹا ہی نہیں کبھی تجھ سے
یہ شاعری تری صورت سے استفادہ ہے

0
127
سارے دریا روٹھ گئے ہیں اپنے اپنے پانی سے
دشت کے اندر بہتی نہر کی چھوٹی سی نادانی سے
کل اک پیڑ کے اوپر چند پرندے باتیں کر رہے تھے
اتنا گرنے کی امید نہ تھی نوعِ انسانی سے
ممکن ہے پھر ان دونوں پر کھلنے کا مفہوم کھلے
میری مشکل ٹکرائے گی جب تیری آسانی سے

0
89
اتنی اجلی دنیا ہے ، تو حیرت ہے
آدمی من کا میلا ہے ، تو حیرت ہے
دل دیوار میں کھڑکی ہے تو ہوگی پر
کھڑکی ہی دروازہ ہے تو حیرت ہے
روشنی ان آنکھوں کے بوسے لیتی ہے
اچھا؟ واقعی ایسا ہے تو حیرت ہے

0
93
کہیں سے آیا ہے رشتہ تمہارے بارے میں
لگا یونہی نہیں دھڑکا تمہارے بارے میں
مجھے تو خوف سا آنے لگا ہے رستے سے
کہ پوچھ لیتا ہے سیدھا تمہارے بارے میں
اس ایک خواب کا تاوان بھر رہے ہیں ہم
وہ ایک خواب جو دیکھا تمہارے بارے میں

0
120
تم لوگ بول سکتے ہو ، بیٹھے ہو چھاؤں میں
ہم لوگ قید رہ گئے اپنی اناؤں میں
تجھ بن کرے گی تنگ مجھے موت کی پری
دکھتا رہے گا جسم قضا کا ہواؤں میں
ممکن نہیں ہے وقت سے پیچھے رہے کہ جو
چلتا رہے زمیں پہ سمے کی کھڑاؤں میں

0
73
عفو کے خواستگار روتے ہیں
شاہ کے سوگوار روتے ہیں
ذکر کرتا ہوں ابنِ حیدر کا
لفظ زار و قطار روتے ہیں
لختِ شیرِ خدا رہے محصور
اس خطا پر حصار روتے ہیں

133
عمر سے کرتے محبت ، عمر عمر کرتے
کبھی نہ کرتے عداوت عمر عمر کرتے
عدو عمر کے ہیں دشمن رسولِ اکرم کے
نبی کے اہلِ مودت عمر عمر کرتے
یہ کم شناس نہ سمجھیں گے شانِ فاروقی
ذرا جو ہوتی بصیرت عمر عمر کرتے

92
برائے عام تعارف مرا کرائے گا
دہر مدام تعارف مرا کرائے گا
کبھی چلو تو سہی تم جنوں کے رستے پر
ہر اک مقام تعارف مرا کرائے گا
زباں خموش رہی تو یہ لفظ بولیں گے
مرا کلام تعارف مرا کرائے گا

0
88
جب کبھی سر کو تم جھکاؤ گے
ہم کو دل کے قریب پاؤ گے
موسموں سا مزاج رکھتے ہو
عہدِ الفت کہاں نبھاؤ گے
آپ سے گر سوالِ وصل کروں
سر کو اثبات میں ہلاؤ گے؟

0
66
آنکھوں کو پیار کی یہ سزا دینی چاہیے
شمعِ امیدِ وصل بجھا دینی چاہیے
اے کاش ان کے دل میں کبھی آئے یہ خیال
ہم کو مئے وصال پلا دینی چاہیے
امید عدل گرچہ نہیں منصفین سے
زنجیرِ عدل پھر بھی ہلا دینی چاہیے

0
94
اصلیُ النسل تو شیطاں کے مقابل آئیں
نسلِ شیطاں ہیں جو یزداں کے مقابل آئیں
پارسائی کا بھرم ان کی یقیناً کھل جائے
گر فرشتے کبھی انساں کے مقابل آئیں
حُسنِ حورانِ جناں کا نہیں منکر لیکن
ان میں ہمت ہے تو جاناں کے مقابل آئیں

0
131
الاؤ نفرتوں کا جب تلک مدھم نہیں ہوتا
دلوں میں فاصلہ میرے عزیزو کم نہیں ہوتا
یہ ممکن ہے کہ ہو جائے مناسب فیصلہ لیکن
کبھی جھکتا نہیں ہوں میں ، کبھی وہ خم نہیں ہوتا
غلط کہتے ہیں ، جھوٹے ہیں ، فقط بکواس کرتے ہیں
گزرتا وقت زخموں کا کبھی مرہم نہیں ہوتا

0
96
ضبط کرتا آیا ہوں میں پر اب ضروری ہے
تشنگی مٹانے کو جامِ لب ضروری ہے
شعر تو سناتا میں دیکھ دیکھ کر تجھ کو
کیا کروں بزرگوں کا بھی ادب ضروری ہے
دم کرا کے آیا ہوں ہیر کے مجاور سے
تیرا خواب میں آنا آج شب ضروری ہے

0
98
کھسر پھسر ہی کریں گے ہمارے بارے لوگ
کچھ اور کر نہیں سکتے حسد کے مارے لوگ
ہمیں تو ایک یہی بات لطف دیتی ہے
تمہیں ہمارا سمجھتے ہیں اب تمہارے لوگ
کئی کی عید سے پہلے ہی عید ہو گئی ہے
ہلال ڈھونڈتے دیکھے ہیں کچھ ستارے لوگ

0
159
عشق میں سارے اسی انعام کے مالک بنے
ہر قدم تہمت لگی ، آلام کے مالک بنے
اہلِ الفت نے غزل لکھی ، دلوں میں گھر کیا
اہلِ زر تو مال سے اجسام کے مالک بنے
نام رکھا اپنی بیٹی کا اسی کے نام پر
اس طرح ہم کم سے کم اس نام کے مالک بنے

0
154
کچھ نہ بگڑا مرا نصیحت سے
باز آیا نہیں محبت سے
عشق نگری سے لوٹ آیا ہوں
آپ کے ایک حکم ِ ہجرت سے
یہ خدائی عطا ہے میرے بھائی
پیار ملتا نہیں ہے دولت سے

0
119
دغا مجھ سے کیا جب روشنی نے
تری آنکھوں کے یاد آئے نگینے
پتہ ہے ؟ میرا ویزہ لگ گیا ہے
بہت صدمہ دیا ہے اس خوشی نے
ہم اک مدت کے بعد ایسے ملے کہ
وہ مجھ کو دیکھ کر بولی ، کمینے!

0
84
حسن کی آنکھیں کھل جائیں تو اندھا پانی ہو جاتا ہے
اس کے جسم پہ پڑ کر شرم سے دوہرا پانی ہو جاتا ہے
اس کے ساحل پر چلنے سے ہو جاتی ہے ریت گلاب
چھو کر پاؤں کھارا پانی میٹھا پانی ہو جاتا ہے
زلفوں کو چھوتے ہی پانی خمر کی وادی میں ڈوبے
ہونٹوں کو چومے تو ان کا رسیا پانی ہو جاتا ہے

0
64
پی کر بھی ترے نام کو افشا نہ کیا ہے
رسوا ہوں مگر تجھ کو تو رسوا نہ کیا ہے
اس دل پہ ستم آپ نے کیا کیا نہ کیا ہے
شکوہ نہیں اچھا مگر اچھا نہ کیا ہے
غیروں سے لیے قرض ، رکھا جان کو گروی
یاروں کو شکایت ہے کہ خرچہ نہ کیا ہے

0
78
بہتر یہی لگا سو مرے یار لکھ دیا
منبع مہک کا آپ کے رخسار لکھ دیا
پایا نہ کوئی جرم جو اس نے مرے کنے
جرمِ عدم گنہ کا خطا کار لکھ دیا
رکھ کر مری سرشت میں خوئے شگفتگی
کاتب نے راہِ زیست کو پر خار لکھ دیا

0
103
جب تمہارے بلد میں رہنا پڑا
ایک سیلِ حسد میں رہنا پڑا
احتجاجاً جنون چھوڑ دیا
انتقاماً خرد میں رہنا پڑا
ایک رومانوی غزل کے لیے
آپ کے خال و خد میں رہنا پڑا

0
73
زادِ رہ پاس نہ معلوم کدھر جانا ہے
ہم سفر کوئی نہ رہ رو ہے ، مگر جانا ہے
آپ کہتے تھے ہمیں پھول سو لازم ٹھہرا
پھول کو ٹوٹ کے ہر سمت بکھر جانا ہے
آج ہے اس مہِ کامل کی زیارت کرنی
کوچہ ءِ یار میں پھر بارِ دگر جانا ہے

0
116
ممانعت ہے محبت کی سو حذر کرنا
عداوتوں کی اجازت ہے عمر بھر کرنا
تمہارا گاؤں نہیں ہے یہ شہر ہے لڑکی
یہاں بھروسہ کسی پر بھی سوچ کر کرنا
خطوط پھینک چکا ہوں مگر یہ عادت ہے
دراز کھول کے چیزیں ادھر ادھر کرنا

0
95
جس پہ جچتا کوئی استعارہ نہ ہو
کوئی دنیا میں اتنا بھی پیارا نہ ہو
بے حجاب ان کو دیکھیں نہ کیوں ایک ٹک
کیا خبر یہ نظارہ دوبارہ نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے منزل پکارے ہمیں
عین ممکن ہے اس کو گوارہ نہ ہو

0
62
آسماں ہے دسترس میں ، ہے زمیں پر دسترس
کیا کروں محبوب کو بھی ہے نہیں پر دسترس
خود کسی کی دسترس میں یہ کبھی آتا نہیں
ہے مکانِ دل کو لیکن ہر مکیں پر دسترس
ایسا لگتا ہے کہ جیسے دسترس میں چاند ہے
آج کل ہے ایک ایسی مہ جبیں پر دسترس

0
74
کر تجھے روز یاد لیتا ہوں
دل کو کر ایسے شاد لیتا ہوں
جب کہوں جزوِ زندگی تم ہو
جزو سے کُل مراد لیتا ہوں
سچ کہوں تو گناہ لگتا ہے
سانس جو اس کے بعد لیتا ہوں

0
94
دشمن کیوں ہے آج وہ اپنی بیٹی کی آزادی کی
جس نے گھر سے بھاگ کے اپنی مرضی سے تھی شادی کی
جس دن تیرا والد تیرے لہجے سے ڈر جائے گا
پہلی اینٹ اسی دن رکھی جائے گی بربادی کی
میری پشت پہ اینٹوں میں کچھ اور اضافہ کر دو تم
آج مجھے اک خواہش پوری کرنی ہے شہزادی کی

0
50
جس وقت بھی وہ چاند کو دیکھے گا پلٹ کر
چپ چاپ قمر ابر میں چھپ جائے گا ہٹ کر
ہمراہ بھلے عقل کو رکھ راہِ جنوں میں
پر جیسا وہ کرنے کو کہے ، اس کا الٹ کر
کر صرفِ نظر آبلہ ءِ پا سے وفا کیش
منزل کا نشاں پائے گا خاروں سے نبٹ کر

0
93
اشاروں ہی اشاروں میں تکلم ہوتا جاتا ہے
مزاجِ یار برہم اور برہم ہوتا جاتا ہے
گزارش ہے کہ پھر سے آ کے زخمِ دل کو تازہ کر
پرانا زخم دھیرے دھیرے مدھم ہوتا جاتا ہے
عجب قصہ ہے آنکھوں سے ان آنکھوں کے تصادم کا
محبت بڑھتی ہے جوں جوں تصادم ہوتا جاتا ہے

0
80
ہمیں اور کچھ مت کھلائے پلائے
محبت جسے ہے وہ چائے پلائے
خدایا مجھے اس کی قربت عطا کر
کڑک چائے جو کہ بنائے ، پلائے
وہ جیسے کمرشل میں ہم دیکھتے ہیں
کبھی اس طرح کوئی گائے ، پلائے

0
52
گو واقفِ سر نہاں تو بھی نہیں میں بھی نہیں
لیکن جہاں میں رائگاں تو بھی نہیں میں بھی نہیں
چاہیں اگر تو لمحہ بھر میں رنجشیں کافور ہوں
اس درجہ لیکن مہرباں تُو بھی نہیں میں بھی نہیں
اپنی انا کے خول میں کب تک بتا سمٹے رہیں
کیوں حالِ دل کرتا بیاں تو بھی نہیں میں بھی نہیں

0
61
پاس بھی بلاتے ہیں ، نام بھی نہیں لیتے
اور پاس جائیں تو کام بھی نہیں لیتے
ایک ہم کہ ساری عمر ان پہ وارنا چاہیں
ایک وہ کہ ہم سے اک شام بھی نہیں لیتے
ہم کچھ ایسے تاجر ہیں ، کاروبار الفت میں
خود کو بیچ دیتے ہیں ، دام بھی نہیں لیتے

0
134
اس کے دیکھے سے بھی گل کھِلا ہی نہیں
اس لیے موسموں سے گلہ ہی نہیں
اولیں جام سے ہی بہک جائے جو
ایسے کم ظرف کو تو پِلا ہی نہیں
مجھ سے ملنے وہ آیا بچھڑتے سمے
جانے کیا سوچ کر میں مِلا ہی نہیں

0
75
حالتِ سوزِ دروں کی ترجمانی چاہیے
خامہ ءِ محوِ طرب کی مہربانی چاہیے
دشتِ ہجراں میں بھٹک کر گم رہِ منزل ہوا
تشنہ ءِ دیدار آنکھوں کو نشانی چاہیے
بے خودی ، دیوانگی ، آشفتگی کی زد میں ہوں
اور اس بحرِ فنا میں بے کرانی چاہیے

0
162
اس نے گجرے منگائے پھولوں کے
بھاؤ سب نے بڑھائے پھولوں کے
اس کے بارے میں سوچنا چاہا
کچھ نہ سوجھا سوائے پھولوں کے
ایک گل رخ کے تذکرے کے لیے
ڈھونڈ کر لفظ لائے پھولوں کے

0
164
وہ رشکِ گل بصد اصرار دے گا
مگر خوشبو نہ دے گا ، خار دے گا
کرے گا قید ہم کو دل مکاں میں
ہمارے ہاتھ پھر پرکار دے گا
تغافل سہہ لیا جاتا پر اس کا
پلٹ کر دیکھ لینا مار دے گا

0
90
جب سے ان کو خواب سناتے دیکھا ہے
تعبیروں کو ناز اٹھاتے دیکھا ہے
کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آیا
اس کو گھاٹ سے پانی لاتے دیکھا ہے
جانے کیا حالت ہوگی اس سے مل کر
جس کو خواب میں آتے جاتے دیکھا ہے

0
78
رستہ جو کیا تم نے مری جان علیحدہ
اب بیٹھے رہو ہو کے پشیمان علیحدہ
اک شوخ تبسم سے کیا ہم کو دوانہ
اک ہوش گیا دوسرا احسان علیحدہ
غرقاب کیا گال کے اُس شوخ بھنور نے
جذبات میں اٹھتے ہوئے طوفان علیحدہ

0
70
حسن کے در پر کوئی حاجب نہیں
پھر بھی کوئی دید کا طالب نہیں
کب کھُلی پٹی ہوس کی آنکھ سے
جسم کہتا رہ گیا! صاحب! نہیں
حضرتِ انسان کے اعمال دیکھ
کیا یہی شیطان کے نائب نہیں؟

0
117
بس یار کچھ گذارہ ہے ماہر نہیں ہوں میں
تحدیثِ حُسن کرتا ہوں ، شاعر نہیں ہوں میں
مؤمن کو لمسِ یار کی نعمت سے کیا گریز؟
گرچہ گناہ گار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں
لے جائیے جناب یہ بوسے کہ مفت ہیں
عاشق ہوں میں خلوص کا تاجر نہیں ہوں میں

0
179
وقتِ رخصت مری ماں نے مرا ماتھا چوما
منزلوں نے تبھی بڑھ کر مرا تلوا چوما
دی مؤذن کو دوا نیند کی اور پھر کل شب
ہم نے جی بھر کے تمہیں خواب میں دیکھا چوما
جس طرح قیمتی شے کو کوئی مفلس دیکھے
آنکھوں آنکھوں میں تجھے ہم نے سراہا ، چوما

0
106
دل دائمی حزیں کو مسرور کر دیا ہے
گو لمس کی تھکن نے ہمیں چور کر دیا ہے
اس آنکھ کے بھنور سے ہم بچ گئے ہیں لیکن
اس تل کی دل کشی نے محصور کر دیا ہے
تاثیر پوچھیے مت اس شوخ لب کی جس نے
آبِ محض کو بنتِ انگور کر دیا ہے

0
52
تم نے صرف یہ دیکھا آنکھیں نم اضافی ہیں
لے رہا ہوں میں جتنے سارے دم اضافی ہیں
تجھ کو تکنے والے سب آنکھ میں ہیں کھو جاتے
جیسے تیرے باقی سب زیر و بم اضافی ہیں
جلد ہی ہمیں سولی پر چڑھایا جائے گا
مصلحت کی دنیا میں یار ہم اضافی ہیں

0
138
تمام جسم کے اعضا میں پھول کھلتے ہیں
کسی نظر کی تمنا میں پھول کھلتے ہیں
اسی کے اذن سے آباد ہیں مساجد سب
رضا سے جس کی کلیسا میں پھول کھلتے ہیں
ازل سے جاری ہے اُن پر سلام اور درود
ازل سے اس لیے دنیا میں پھول کھلتے ہیں

0
88
حسن کو بے مہار مت کرنا
عشق سر پر سوار مت کرنا
نم رہے آنکھ میں ، مگر محدود
جھیل کو آبشار مت کرنا
قتل سے انتظار مشکل ہے
تم مرا انتظار مت کرنا

0
84
بھرم رہنے دو ، مت چھیڑو ملن کی رات کا قصہ
پریشاں زلف کی باتیں ، دل و جزبات کا قصہ
نہ پوچھو کیفیت مجھ سے خمارِ لمسِ جاناں کی
بیاں کر ہی نہیں سکتا میں ان لمحات کا قصہ
چلو مانا ہمارے میں نہیں ہے پیار کا رشتہ
مگر پھر کیا ہے آنکھوں سے تری برسات کا قصہ

0
74
ایک دل ہے وہاں منتظر ، جاؤں میں
راہبر راہ کر مختصر ، جاؤں میں
شوقِ آوارگی دے اجازت مجھے
دے اجازت مجھے اپنے گھر جاؤں میں
کر رہا بھی نہیں میری چارہ گری
چاہتا بھی نہیں چارہ گر جاؤں میں

0
53
تمہارا ہوتے ہوئے بھی تم سے جدا رہا ہوں
اور اس مرض میں کئی برس مبتلا رہا ہوں
متاعِ عمرِ رواں کچھ ایسے لٹا رہا ہوں
کسی کی خاطر کسی کے خوابوں میں آرہا ہوں
مری جفا کے ہر اک محلے پہ دسترس ہے
میں ایک مدت اسیرِ دشتِ وفا رہا ہوں

0
84
اس طرح ہوتی نہ پسپائی فصیلِ شہر پر
نیند کی دیوی تھی چِلائی فصیلِ شہر پر
کھوجتا ہوں دشتِ الفت میں کوئی شہرِ وفا
ختم ہوگی دشت پیمائی فصیلِ شہر پر
سنسنی پھیلی صفوفِ دشمنانِ عشق میں
دیکھ کر اپنی پزیرائی فصیلِ شہر پر

0
82
اپنے کمرے میں چار سُو پھیلی
تیری خوشبُو سے جاں چھڑا لی تھی
تیرے نامے جلا چکا تھا میں
تیرے تحفے ، کتاب ، گلدستے
ایک اک کر کے سب گما ڈالے
تیری چُوڑی سنبھال رکھی تھی

0
75
ہمیشہ عہدِ وفا نبھائیں گے ، چوم لیں گے
خفا ہوا تو اسے منائیں گے ، چوم لیں گے
انہوں نے رسمی سلام پر اکتفا کیا ہے
ہمیں لگا تھا گلے لگائیں گے ، چوم لیں گے
گلاب تو پھر گلاب ہے اس گلی کے کانٹے
بھی اپنی آنکھوں میں ہم بسائیں گے چوم لیں گے

0
89
سب گلے شکوے برابر ہو گئے
اور ان کے لب میسر ہو گئے
دیکھ کر میری نگاہِ شوق وہ
شرم کے مارے ٹماٹر ہو گئے
راہ چلتے ہم سے وہ ٹکڑا گئے
جسم و جاں یوں کیف آور ہو گئے

0
87
تقریر غلط ، نعرہ ءِ تکبیر غلط ہے
باطل کے لیے اٹھے تو شمشیر غلط ہے
عکاس ترے فن سے شکایت نہیں لیکن
ہنستی جو بنائی مری تصویر غلط ہے
عشاق پہ لازم ہے کہ ہوں پیکرِ تسلیم
دل بستی میں اوہام کی تعمیر غلط ہے

0
66
تمہارا عہدہ و نام و نسب اضافی ہے
تم اس کے شہر سے آئے ہوئے ہو! کافی ہے
وہ حور ہے کہ نہیں ہے ، گلاب ہے کہ تراب
یہ مسئلہ ابھی لوگوں میں اختلافی ہے
نہ جائے کوئی گھڑی اس کے ورد سے خالی
ہر ایک رنج و محن میں وہ اسم شافی ہے

0
62
رہے ہیں پہلے بہت برس آب و گل سبوتاژ
گرا کے برقے جفا نہ کر کشت دل سبوتاژ
گنوا کے رختے فراق پائی ہے شام قربت
جسے تغافل کرے ترا مستقل سبوتاژ
چھلک رہا تھا غرور ان کی ہر اک ادا سے
ترے تبسم سے گل ہوئے ہیں خجل سبوتاژ

0
57
کلی کھل کر ابھی مہکی نہیں ہے
ہمیں بھی وصل کی جلدی نہیں ہے
مسلسل حُسن کو تکنے کی عادت
پسندیدہ تو ہے اچھی نہیں ہے
لب و رخسار دیکھے پی رہا ہوں
وگرنہ چائے میں چینی نہیں ہے

1
193
اس کے دیکھے سے بھی گل کھِلا ہی نہیں
اس لیے موسموں سے گلہ ہی نہیں
اولیں جام سے ہی بہک جائے جو
ایسے کم ظرف کو تو پِلا ہی نہیں
مجھ سے ملنے وہ آیا بچھڑتے سمے
جانے کیا سوچ کر میں مِلا ہی نہیں

0
55
آپ نگاہِ مست سے سنگ کو آب کیجیے
تھامیے آب ہاتھ میں اور شراب کیجیے
کارِ وفا کا جب نہیں کوئی صلہ جنابِ عشق
عبد نیا تلاشیے، میرا حساب کیجیے
آ ہی گئے ہیں آپ تو اتنا کرم کہ دو قدم
چل کے ہمارے ساتھ دل سب کے کباب کیجیے

0
83
جہاں شعر میرے مجسم ملیں گے
وہاں گنگ سب ابن آدم ملیں گے
رواں سال بھی پائے رنج و الم ،اب
نیا سال آیا، نئے غم ملیں گے
مہکتے رہیں گے مسامِ بدن بھی
اگر لمس کے پھول پیہم ملیں گے

0
65
ہم اگر ڈیٹ پر بھی جائیں گے
لوگ شادی شدہ ہی سمجھیں گے
آؤ! مل کر گزاریں کوئی شام
اپنے بچوں کے نام سوچیں گے
تم ملے تو سلام سے پہلے
ہم نگاہوں سے تم کو چومیں گے

0
96
جگر میں آگ بھڑکانے لگی ہے
کسی کی یاد پھر آنے لگی ہے
مریض عشق بنتا جا رہا ہوں
طبیعت آپ پر آنے لگی ہے
اداسی پی رہی ہے خون میرا
بلائے ہجر جاں کھانے لگی ہے

0
54
میں نے کچھ الفاظ لکھے اور فیصلہ اس پر چھوڑ دیا
اس نے وہ الفاظ پڑھے اور چپکے سے گھر چھوڑ دیا
تب سے میرے ہاتھ کو تتلی پھول سمجھ کر بیٹھی ہے
جب سے تم نے ہاتھ کو میرے ہونٹ لگا کر چھوڑ دیا
کہساروں کے بیچ سنہری جھیل کنارے میں اور تم
پھر میں نے آنکھیں کھولیں اور سارا منظر چھوڑ دیا

0
81
سیاہ شب نے شجر لپیٹا
مسافروں نے سفر لپیٹا
بچھا کے یادوں کا ایک بستر
فراق شب کی بسر ، لپیٹا
زمیں پہ مدت ہوئی مکمل
کرائے پر تھے ، سو گھر لپیٹا

0
86
چہرہ ہوا گلنار ، بڑھا رنگِ حیا اور
ہاتھوں کو ترے چوم کے جب میں نے کہا! اور؟
امروز کریں وعدہ ءِ توصیل کو ایفاء
ہوتا ہے تو ہو جائے کوئی ہم سے خفا اور
آ! اتنا قریب آ! کہ بدن جزوِ بدن ہو
اے دوست! مئے لمس پلا اور ، ذرا اور

0
61
آنکھیں نہیں ہیں؟ دل نہیں؟ یا پھر جگر نہیں؟
سب کچھ ہے میرے پاس تو پھر کر حذر نہیں
اب آ چکے ہیں آپ تو رہ جائیے یہیں
دل کو مقام کیجیے صاحب ڈگر نہیں
موتی ہیں بے شمار بھلے بحر عشق میں
بہتر مگر یہی ہے کہ اس میں اتر نہیں

0
108
تیری بانہوں کی پناہوں سے جو مینٹل بھاگے
دفع ہو ، شہر سے نکلے ، کسی جنگل بھاگے
وہ اگر دھوپ میں بارش کی دعائیں مانگے
آئیں گے اس کے لیے دیکھنا بادل بھاگے
اک جھلک دیکھتے ہی روڈ پہ جانے کتنے
چپلیں چھوڑ کے پیچھے ترے پیدل بھاگے

0
97
اٹھتی ہے میرے دل میں غم کی کسک ابھی بھی
جب دیکھ لوں کہیں پر اس کی جھلک ابھی بھی
جس کوہ پر کبھی ہم بیٹھےتھے لمحہ بھر کو
اس کو مدام جھک کر چومے فلک ابھی بھی
مدت ہوئی کسی دن گزرا تھا اس گلی سے
مدہوش کر رہی ہے ہم کو مہک ابھی بھی

0
168
ہجر ہم کو ڈستا ہے ، یاد خوں رلاتی ہے
فرقوں کے موسم کی ہر ادا ستاتی ہے
چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھنا نہیں اچھا
تم جو روٹھ جاتے ہو سانس تھم سی جاتی ہے
یوں تو اس پری وش کی ہر ادا قیامت ہے
پر نگاہِ ناز اس کی برق جو گراتی ہے

0
73
فراق رت میں ہوئی جب ملال کی بارش
انہی دنوں میں ہوئی پورے سال کی بارش
یہ گلستانِ تخیل فنا نہ ہو جائے
زمینِ فکر پہ برسا جمال کی بارش
ترے سکوت سے چرکے لگیں سماعت پر
ترے کلام سے ہو اندمال کی بارش

0
98
آئنے بے لباس تکتے ہیں
ہم بچارے لباس تکتے ہیں
دیکھتے ہیں کچھ اور اہلِ عشق
عقل والے لباس تکتے ہیں
ہائے وہ جسم جس کو حسرت سے
سارے اچھے لباس تکتے ہیں

0
71
رفاقت کی تمنا ہو تو تنہا چھوڑ جاتے ہیں
اجالے چھین کر سارے اندھیرا چھوڑ جاتے ہیں
میں کہہ تو دوں اسے اپنا مگر یہ سوچ کر چپ ہوں
کہ اپنے ہی مجھے اکثر اکیلا چھوڑ جاتے ہیں
مداوائے الم سمجھا جنہیں بھی اس زمانے میں
وہ دے کر درد کا اک اور صحرا چھوڑ جاتے ہیں

0
91
زندگانی کے ہر باب میں آنکھ ہے
آنکھ میں خواب ہے ، خواب میں آنکھ ہے
جسم اپنا ہے دو کشتیوں میں سوار
سندھ میں دل ہے پنجاب میں آنکھ ہے
چاند کو بھی وہ تکتے نہیں بے حجاب
ان کو لگتا ہے مہتاب میں آنکھ ہے

0
91
کہا تھا ناں ترا ہو کر رہوں گا
تو اب کیسے جدا ہو کر رہوں گا
میں اک سوکھا شجر ہوں جانتا ہوں
تو چھو لے تو ہرا ہو کر رہوں گا
کروں گا مس تجھے اور پھر ہمیشہ
معطر پھول سا ہو کر رہوں گا

0
97
ایسا نہ سمجھ طاقتِ گویائی نہیں ہے
فطرت میں مگر میری خود آرائی نہیں ہے
وہ شخص بتا سکتا نہیں حسن کا مطلب
جس شخص نے دیکھی تری انگڑائی نہیں ہے
اچھا ہے مگر آپ سے اچھا تو نہیں گل
رعنا ہے مگر آپ سی رعنائی نہیں ہے

0
64
اداس آبشار ، کوہسار بھی اداس ہیں
درونِ کاشمیرِ دل چنار بھی اداس ہیں
گلاب ہیں اداس کہ تمہارا لمس چھن گیا
گریز پا جو تم ہوئے تو خار بھی اداس ہیں
تمہارے پاؤں چومنے کو چھت کوئی ترس گئی
سکھائے جن پہ پیرہن وہ تار بھی اداس ہیں

0
87
تاب لا سکتے ہیں گر ان کی میاں تو دیکھیے
ان کی آنکھوں سے لپکتی بجلیاں تو دیکھیے
دندناتی پھر رہی ہیں حسن کے مینار پر
آپ زلفِ یار کی بد مستیاں تو دیکھیے
آنے والی ہے بہارِ لمس باغِ جسم پر
عارضِ جاناں کی ہائے سرخیاں تو دیکھیے

0
75
مت کرے اب وہ پیش و پس جائے
اس کو جانا ہی ہے تو بس جائے
یہ کہاں کی بھلا شرافت ہے
بندہ ملنے کو ہی ترس جائے
اس مقدس شباب سے کہہ دو
میں نے کر لی نگاہ مَس جائے

0
98
رقیبوں پر تمہارے جب کرم محسوس کرتا ہوں
میں اپنی دشت آنکھوں کو بھی نم محسوس کرتا ہوں
میں بھی انسان ہوں پتھر نہیں ہوں اے مرے ہم دم
میں چپ رہتا ہوں پر سارے ستم محسوس کرتا ہوں
مجھے ڈر ہے کہیں مروا نہ دے حساسیت مجھ کو
ہر اک انساں کے غم کو اپنا غم محسوس کرتا ہوں

0
95
کچھ بجز اس کے خدا سے کبھی خواہش نہیں کی
وہ جو کہتا ہے کبھی آپ نے کوشش نہیں کی
اس کو مانگا تو نہیں مانگی دعائے جنت
اس کو دیکھا تو کسی اور کی خواہش نہیں کی
اس فسوں گر نے جونہی پھونکا طلسمِ دیدار
دھڑکنیں تھم سی گئیں، آنکھ نے جنبش نہیں کی

0
78
دیکھا تھا جس نے دانت کے نیچے دبا کے ہونٹ
بھڑکا گئے ہیں پیاس اسی اپسرا کے ہونٹ
میں نے سوالِ تشنگی اک خط میں جب کیا
بھیجے مجھے جواب میں اس نے بنا کے ہونٹ
لرزیں ذرا جو ہونٹ کوئی بات کرتے وقت
حسرت سے دیکھیں ایڑیاں اپنی اٹھا کے ہونٹ

0
102
دعائیں کرتا ، تمنا جسے بتاتا تھا
اگر نہ حال پہ ہنستا جسے بتاتا تھا
کجا گلاب کجا شوخی ءِ لبِ جاناں
نہیں ہے راکھ بھی سونا جسے بتاتا تھا
جوزخم اس نے ادھیڑے ہیں ٹھیک ہو چکے تھے
ہر اک مریض مسیحا جسے بتاتا تھا

0
66
فصیلِ قلب پہ قبضہ جمائے بیٹھا ہے
وہ ایک شخص جو میرا نہیں پرایا ہے
تمام شعر اسی کے رہینِ منت ہیں
مرے خیال پہ جس شخص کا اجارہ ہے
ہزار ذائقے ہیں اس بدن میں پوشیدہ
نہ صرف ترش نہ تیکھا نہ صرف میٹھا ہے

0
60
شمار کیجیے میرا بھی خاص لوگوں میں
کہ بانٹتا ہوں محبت کی پیاس لوگوں میں
وہ قہقہے نہ لگانے لگیں تو پھر کہنا
ہمارا ذکر تو چھیڑو اداس لوگوں میں
نصیب سامنے رکھتی جو اپنی بیٹی کا
برائی کرتی بہو کی نہ ساس لوگوں میں

0
95
ریشمی جال خوب صورت ہیں
آپ کے بال خوب صورت ہیں
کتنی دلکش ہیں آپ کی آنکھیں
آپ کے گال خوب صورت ہیں
سچ کہوں تو گلاب سے بڑھ کر
ہونٹ یہ لال خوب صورت ہیں

164
آپ سے گر نہ رابطہ ہوتا
حال دل کا بہت بُرا ہوتا
کاش مل جاتی یار کی تصویر
کچھ نہ کچھ دل کو آسرا ہوتا
تجھ کمر پر میں اک غزل لکھتا
جس کا باریک قافیہ ہوتا

0
101
وجودِ خیش خدائے سخن سمجھتے ہیں
ہمارے شہر میں دو چار لوگ ایسے ہیں
سکوت ان کا گراں بار ہے سماعت پر
سنا تھا ان کے تکلم سے پھول کھلتے ہیں
سماعتوں میں مہک گھولتے ہیں شعر ان کے
درونِ بزمِ ادب جو خموش بیٹھے ہیں

0
86
ہماری آنکھ ان سے کیا لڑی ہے
ہر اک ساعت قیامت کی گھڑی ہے
خطا چھوٹی سہی دیدارِ بے اذن
سزا لیکن بہت اس کی کڑی ہے
نہ مجھ سے چھینیے میرا تبسم
بہت مشکل سے یہ عادت پڑی ہے

0
91
کیوں ظلم کو سہتے ہو صدا کیوں نہیں دیتے
جو دل پہ گزرتی ہے بتا کیوں نہیں دیتے
ہر جور و ستم کس لیے سہہ جاتے ہو چپ چاپ
باطل کے محلات جلا کیوں نہیں دیتے
ہر بار ہی مجرم کو بچا لیتے ہیں منصف
ظالم کو سرِ عام سزا کیوں نہیں دیتے

0
105
نام اس پر تمہارا لکھا رہ گیا
تختۂِ دل تبھی تیرتا رہ گیا
تیرے گھر سادہ پانی پیا تھا کبھی
میرے ہونٹوں پہ وہ ذائقہ رہ گیا
سارے اسمائے نکرہ ہوئے کالعدم
حافظے میں بس اک معرفہ رہ گیا

0
64
گھومتے ہیں شہر میں جو لوگ بے پرواہ سے
مل رہا ہے فیض ان کو عشق کی درگاہ سے
حال کیا ہوگا حقیقت میں اگر وہ آ ملیں
گلستانِ جسم کھل اٹھتا ہے جب افواہ سے
عرضِ حالِ کربِ ہجرِ بے کراں ہے رائگاں
جب جوابِ عرض کا آغاز ہو اخّاہ سے

0
177
خیالِ یار میں مجھ کو یونہی مدہوش رہنے دو
نہ پوچھو رات کا قصہ، مجھے خاموش رہنے دو
بنا جس کے کہے جس کی میں سب باتیں سمجھتا ہوں
مجھے اس کے لیے یونہی ہمہ تن گوش رہنے دو
سُنایا وصل کا قصہ ، تو میرے یار یوں بولے
کہاں تم اور کہاں اس کی حسیں آغوش، رہنے دو

0
591
بات ہوتی ہے تری تب ہی اثر رکھتے ہیں
قدر اشعار مرے کچھ بھی اگر رکھتے ہیں
زلف کی اوٹ میں ہے ایک شہابی صورت
یعنی اک رات کے سائے میں سحر رکھتے ہیں
لب و رخسار و جبیں دیکھنا دشوار مگر
ہم سرِ بزم ان آنکھوں پہ نظر رکھتے ہیں

0
117
اک شام باغ میں نئی کھلتی کلی ملی
خوشبو بھی اس کے پاؤں سے لپٹی ہوئی ملی
تصویرِ یار لگ گئی اک روز میرے ہاتھ
سمجھو مرے ہوئے کو نئی زندگی ملی
گردن کے دو تلوں کی ہوئی جوڑی آشکار
ان کا طواف کرتی ہوئی روشنی ملی

0
162
جسم جب تیر سے کمان ہوا
ہر تعلق بلائے جان ہوا
بے رخی نے جنم دیا ہے درد
ہجر کی گود میں جوان ہوا
میں بھی غمگین ہوں مگر جتنا
بعد تیرے مرا مکان ہوا

0
48
ادھڑ گیا ہے جو پہلے لگایا تھا پیوند
قریب آ مرے ، پھر سے لگا نیا پیوند
کسی غریب کے بوسیدہ پیرہن کی طرح
لگے ہوئے ہیں مرے دل پہ جا بجا پیوند
تمہارے ہجر نے روزن بنا دیا دل میں
تمہاری یاد نے آکر لگا دیا پیوند

0
73