| وجودِ خیش خدائے سخن سمجھتے ہیں |
| ہمارے شہر میں دو چار لوگ ایسے ہیں |
| سکوت ان کا گراں بار ہے سماعت پر |
| سنا تھا ان کے تکلم سے پھول کھلتے ہیں |
| سماعتوں میں مہک گھولتے ہیں شعر ان کے |
| درونِ بزمِ ادب جو خموش بیٹھے ہیں |
| ہمارے واسطے منزل نہیں محبت کی |
| ہمارے واسطے دشتِ الم کے ٹیلے ہیں |
| وہ دور جا کے ہنسے ہیں تری حماقت پر |
| جنہیں تو بولنے دیتا نہیں کہ بچے ہیں |
| بہت لذیذ ہیں اس کی زباں کے چٹخارے |
| یہی نہیں کہ فقط نین نقش تیکھے ہیں |
| ہمارا حال حقیقت کا ترجمان نہیں |
| ہرے ضرور ہیں انگور ، پھر بھی میٹھے ہیں |
| میں ایک لفظ سنوں گا نہ دوستوں کے خلاف |
| میں جانتا ہوں منافق ہیں پر وہ میرے ہیں |
| مت عشق والوں کے ظاہر پہ جائیو آسیؔ |
| خدا کے پاس انہی کے مقام اونچے ہیں |
معلومات