اک شام باغ میں نئی کھلتی کلی ملی
خوشبو بھی اس کے پاؤں سے لپٹی ہوئی ملی
تصویرِ یار لگ گئی اک روز میرے ہاتھ
سمجھو مرے ہوئے کو نئی زندگی ملی
گردن کے دو تلوں کی ہوئی جوڑی آشکار
ان کا طواف کرتی ہوئی روشنی ملی
زلف ِ دراز ان کی مجھے یاد آ گئی
مہکی ہوئی کہیں پہ اگر تیرگی ملی
ملتے رہے ہیں لوگ بچھڑنے کے باوجود
کھوئی ہوئی مگر نہ ہماری ہنسی ملی
ہائے یہ کیا ہوا کہ مری نیند مر گئی
کل رات جبکہ آنکھ کو اچھی بھلی ملی
بہتان باندھنے لگے کردار پر مرے
لوگوں کو جب دلیل نہیں منطقی ملی
جانا ہوا مرا جو کبھی خواب زار میں
پہلی گلی میں آخری اپنی خوشی ملی
آسی طلب فضول ہے آبِ وصال کی
مانگے سے کیا ہے موت کسی کو کبھی ملی؟

0
162