| بہتر یہی لگا سو مرے یار لکھ دیا |
| منبع مہک کا آپ کے رخسار لکھ دیا |
| پایا نہ کوئی جرم جو اس نے مرے کنے |
| جرمِ عدم گنہ کا خطا کار لکھ دیا |
| رکھ کر مری سرشت میں خوئے شگفتگی |
| کاتب نے راہِ زیست کو پر خار لکھ دیا |
| محظوظ ہو رہا تھا میں حالِ تباہ سے |
| اک آشنائے راز نے فنکار لکھ دیا |
| دونوں میں کوئی فرق نہ محسوس جب ہوا |
| نوکِ زبانِ یار کو تلوار لکھ دیا |
| لکھا اگر غلط ہے تو بتلائیے حضور |
| چاہت کو ہم نے دائمی آزار لکھ دیا |
| واری نہ کیسے جائیے ایسے طبیب کے |
| نسخے میں جس نے لمسِ لبِ یار لکھ دیا |
معلومات