بہتر یہی لگا سو مرے یار لکھ دیا
منبع مہک کا آپ کے رخسار لکھ دیا
پایا نہ کوئی جرم جو اس نے مرے کنے
جرمِ عدم گنہ کا خطا کار لکھ دیا
رکھ کر مری سرشت میں خوئے شگفتگی
کاتب نے راہِ زیست کو پر خار لکھ دیا
محظوظ ہو رہا تھا میں حالِ تباہ سے
اک آشنائے راز نے فنکار لکھ دیا
دونوں میں کوئی فرق نہ محسوس جب ہوا
نوکِ زبانِ یار کو تلوار لکھ دیا
لکھا اگر غلط ہے تو بتلائیے حضور
چاہت کو ہم نے دائمی آزار لکھ دیا
واری نہ کیسے جائیے ایسے طبیب کے
نسخے میں جس نے لمسِ لبِ یار لکھ دیا

0
103