| زیست کے ماتھے پہ اک دھبّا ہے |
| وقت جو بعد ترے گزرا ہے |
| نہر دریا سے ملی ہے ام شب |
| چاند بھی دیکھ کے مسکایا ہے |
| مسئلہ یہ ہے محبت نہ رہی |
| فاصلہ اب بھی قدم بھر کا ہے |
| چاہیے جس کو مری تشنہ لبی |
| تیری آنکھوں میں وہی دریا ہے |
| حسبِ عادت رہا شب بھر خاموش |
| صبح ہوتے ہی شجر چہکا ہے |
| شرم ؟ اخلاص ؟ وفاداری ؟ آہ! |
| سبھی چلتا ہے یہاں ، دنیا ہے |
| صبر کر ، حکم بھی ہے ، اوپر سے |
| لوگ کہتے ہیں یہ پھل میٹھا ہے |
| آپ کے باغ میں جچتا ہے مگر |
| میں نے یہ پھول کہیں دیکھا ہے |
| آنکھ میں آگ ہے تنہائی کی |
| عکسِ جانانِ ادا جھونکا ہے |
| قمرآسی |
معلومات