اداس آبشار ، کوہسار بھی اداس ہیں |
درونِ کاشمیرِ دل چنار بھی اداس ہیں |
گلاب ہیں اداس کہ تمہارا لمس چھن گیا |
گریز پا جو تم ہوئے تو خار بھی اداس ہیں |
تمہارے پاؤں چومنے کو چھت کوئی ترس گئی |
سکھائے جن پہ پیرہن وہ تار بھی اداس ہیں |
اگرچہ بحرِ درد کو عبور کر لیا ، مگر |
اداس ہیں ، کہ لوگ اس کے پار بھی اداس ہیں |
عجب قفس ہے رنج کا کہ صیدِ خوش مزاج پر |
لگائے جانے والے سب حصار بھی اداس ہیں |
خیال ایک چشمِ نم کا چشم کیا بھگو گیا |
مسرتوں کے سارے شاہکار بھی اداس ہیں |
خبر لگی ہوئی ہے آج پھر سے بم بلاسٹ کی |
سو اس کے آس پاس اشتہار بھی اداس ہیں |
معلومات