وہ رشکِ گل بصد اصرار دے گا
مگر خوشبو نہ دے گا ، خار دے گا
کرے گا قید ہم کو دل مکاں میں
ہمارے ہاتھ پھر پرکار دے گا
تغافل سہہ لیا جاتا پر اس کا
پلٹ کر دیکھ لینا مار دے گا
سمجھ آئے گا تب ہونٹوں کا مصرف
کوئی جب بوسہ ءِ رُخسار دے گا
سفرپر ساتھ چل میرے ، مگر تُو
جہاں پر جاں ہوئی درکار! دے گا؟
زمانے تجھ سے کچھ مانگا ہی کب ہے
مجھے سب کچھ مرا کرتار دے گا
مکیں کر تو لیا ہے عشق آسیؔ
مکانِ قلب کر مسمار دے گا

0
90