حسن کی آنکھیں کھل جائیں تو اندھا پانی ہو جاتا ہے |
اس کے جسم پہ پڑ کر شرم سے دوہرا پانی ہو جاتا ہے |
اس کے ساحل پر چلنے سے ہو جاتی ہے ریت گلاب |
چھو کر پاؤں کھارا پانی میٹھا پانی ہو جاتا ہے |
زلفوں کو چھوتے ہی پانی خمر کی وادی میں ڈوبے |
ہونٹوں کو چومے تو ان کا رسیا پانی ہو جاتا ہے |
روز ترے کالج کے باہر گھنٹوں بیٹھا رہتا ہوں |
نیت تو بھرتی نہیں لیکن خرچہ پانی ہو جاتا ہے |
اس کی آنکھوں میں طغیانی یوں مجھ کو منظور نہیں |
ڈوبنے لگتا ہے میرا دل ، اتنا پانی ہو جاتا ہے |
اس پانی سے بن سکتی ہے بجلی چاروں موسم کی |
ہر برسات میں یارو ضائع جتنا پانی ہو جاتا ہے |
اچھا تو لگتا ہے جب یہ دنیا ماننے لگتی ہے |
لیکن خود کو منوانے میں پِتہ پانی ہو جاتا ہے |
معلومات