| تاب لا سکتے ہیں گر ان کی میاں تو دیکھیے |
| ان کی آنکھوں سے لپکتی بجلیاں تو دیکھیے |
| دندناتی پھر رہی ہیں حسن کے مینار پر |
| آپ زلفِ یار کی بد مستیاں تو دیکھیے |
| آنے والی ہے بہارِ لمس باغِ جسم پر |
| عارضِ جاناں کی ہائے سرخیاں تو دیکھیے |
| وادی ءِ حسنِ صنم کے سب نظارے خوب ہیں |
| پربتوں کے بعد آتی پستیاں تو دیکھیے |
| وہ عیادت کے لیے آیا ہے لیکن با حجاب |
| اس عدوئے جان کی غم خواریاں تو دیکھیے |
| آپ کیوں بوڑھے شجر کو کاٹنے پر ہیں مُصر ؟ |
| خامشی سے بین کرتی ٹہنیاں تو دیکھیے |
| شورِ پندِ واعظِ بے عشق سن کر چل دیے |
| ٹھہریے! دل کی مرے خاموشیاں تو دیکھیے |
| حکمرانی شوق سے کیجے کہ آخر مرد ہیں |
| پر انا کی بھینٹ چڑھتی لڑکیاں تو دیکھیے |
| دیکھتے ہیں آپ اوور کوٹ میرے جسم پر |
| اس کے نیچے پیرہن کی دھجیاں تو دیکھیے |
| گریہ زاری در پئے آزار ہے سو اہلِ درد |
| سن نہیں سکتے ہماری ہچکیاں تو دیکھیے |
| عمر کی لائی ہوئی سنجیدگی اپنی جگہ |
| شعر کے پردے سے ظاہر شوخیاں تو دیکھیے |
معلومات