ایسا نہ سمجھ طاقتِ گویائی نہیں ہے
فطرت میں مگر میری خود آرائی نہیں ہے
وہ شخص بتا سکتا نہیں حسن کا مطلب
جس شخص نے دیکھی تری انگڑائی نہیں ہے
اچھا ہے مگر آپ سے اچھا تو نہیں گل
رعنا ہے مگر آپ سی رعنائی نہیں ہے
منکر نہیں اثمارِ جہاں کا میں ولیکن
تجھ ایسا کوئی میوہ ءِ صحرائی نہیں ہے
مجمعے میں کھڑا ہو کے بھی جو سب سے جدا ہے
وہ شخص تماشا ہے تماشائی نہیں ہے
اے مجھ سے مرا نام پتہ پوچھنے والے
اتنی بھی مری خود سے شناسائی نہیں ہے
زخموں پہ نمک چھڑکیں ترے شہر کے باسی
لگتا ہے انہیں ذوقِ مسیحائی نہیں ہے
دونوں میں زیادہ نہیں بس فرق ہے اتنا
شہرت ہے بھلی چیز پہ رسوائی نہیں ہے
تعدیل ضروری ہے ہر اک کام میں آسی
تعجیل کسی طور بھی دانائی نہیں ہے

0
62