پی کر بھی ترے نام کو افشا نہ کیا ہے |
رسوا ہوں مگر تجھ کو تو رسوا نہ کیا ہے |
اس دل پہ ستم آپ نے کیا کیا نہ کیا ہے |
شکوہ نہیں اچھا مگر اچھا نہ کیا ہے |
غیروں سے لیے قرض ، رکھا جان کو گروی |
یاروں کو شکایت ہے کہ خرچہ نہ کیا ہے |
برسا نہ کیے ہم پہ ترے وصل کے بادل |
کیا خود کو ترے ہجر میں صحرا نہ کیا ہے |
کیوں کر نہ رہے میری زباں کڑوی کسیلی |
جب تم نے لبوں سے اسے میٹھا نہ کیا ہے |
چپ چاپ چلے آئے لیے دید کی خواہش |
کوچے میں ترے ہم نے تماشا نہ کیا ہے |
ملتی تھی عوض اس کے شہنشاہی جہاں کی |
پر ہم نے ترے درد کا سودا نہ کیا ہے |
دیکھا نہ کیے کیا ہے پس عرض تمنا |
سکہ یہ کبھی آپ نے الٹا نہ کیا ہے |
گو عشق بلا کا کیا تا عمر قمرؔ نے |
وہ جس کے سزاوار تھے ویسا نہ کیا ہے |
معلومات