حالتِ سوزِ دروں کی ترجمانی چاہیے |
خامہ ءِ محوِ طرب کی مہربانی چاہیے |
دشتِ ہجراں میں بھٹک کر گم رہِ منزل ہوا |
تشنہ ءِ دیدار آنکھوں کو نشانی چاہیے |
بے خودی ، دیوانگی ، آشفتگی کی زد میں ہوں |
اور اس بحرِ فنا میں بے کرانی چاہیے |
عشق کے بازار میں ہیں اب خسارے اوج پر |
قیمتِ دیدار ان کو کچھ گرانی چاہیے |
سنگِ راہِ یار سے بہلائے جاؤں کب تلک |
اب دوا بیمارِ الفت کی بڑھانی چاہیے |
جانے کس کے بخت میں وہ گوہرِ نایاب ہے |
سب کو اپنی اپنی قسمت آزمانی چاہیے |
چشمِ حیرت ناک مانگے بس وہی جلوہ مدام |
اور سماعت کو صدائے لن ترانی چاہیے |
معلومات