سیاہ شب نے شجر لپیٹا
مسافروں نے سفر لپیٹا
بچھا کے یادوں کا ایک بستر
فراق شب کی بسر ، لپیٹا
زمیں پہ مدت ہوئی مکمل
کرائے پر تھے ، سو گھر لپیٹا
وہ بت ہوا ہم کلام جب سے
سخن وروں نے ہنر لپیٹا
چلے کہ چلنا ہی زندگی ہے
تھکن بڑھی تو سفر لپیٹا
چلی ہے باتوں میں بات اس کی
بڑھی اسے جس قدر لپیٹا
دکھائی دل کو تمہاری تصویر
لگا کے اس کو بٹر لپیٹا
نقاب یونہی کیا نہیں ہے
وہ جوہری تھا ، گہر لپیٹا
سنوارے تم نے یہ بال اپنے
کہ گیسؤوں میں قمر لپیٹا

0
86