تقریر غلط ، نعرہ ءِ تکبیر غلط ہے
باطل کے لیے اٹھے تو شمشیر غلط ہے
عکاس ترے فن سے شکایت نہیں لیکن
ہنستی جو بنائی مری تصویر غلط ہے
عشاق پہ لازم ہے کہ ہوں پیکرِ تسلیم
دل بستی میں اوہام کی تعمیر غلط ہے
جب چھوڑ گیا ہے تو فراموش بھی ہو جا
پیروں میں پڑی یاد کی زنجیر غلط ہے
آنکھوں سے نہ ظاہر ہو کبھی حالِ دلِ زار
اس طور غمِ ہجر کی تشہیر غلط ہے
شامل ہیں ترے قرب کے لمحات بھی اس میں
ایسا بھی نہیں ساری ہی تقدیر غلط ہے
دیکھا ہے کئی بار اسے پاس ، بہت پاس
یہ خواب نہیں ، خواب کی تعبیر غلط ہے
فی الفور مٹا آنکھ سے وہ عکسِ دل آویز
اس کام میں تھوڑی سی بھی تاخیر غلط ہے
کس واسطے روشن ہے جبیں تیری قمرؔ ، جب
دیکھا نہیں اس نے تو یہ تنویر غلط ہے

0
66