| کچھ بجز اس کے خدا سے کبھی خواہش نہیں کی |
| وہ جو کہتا ہے کبھی آپ نے کوشش نہیں کی |
| اس کو مانگا تو نہیں مانگی دعائے جنت |
| اس کو دیکھا تو کسی اور کی خواہش نہیں کی |
| اس فسوں گر نے جونہی پھونکا طلسمِ دیدار |
| دھڑکنیں تھم سی گئیں، آنکھ نے جنبش نہیں کی |
| بھول کر بھی نہ نبھایا کوئی پیماں اپنا |
| اس جفا کیش نے ایسی کبھی لغزش نہیں کی |
| ہم نے الفت میں بھی چھوڑا نہ خرد کا دامن |
| اس کو چاہا ہے مگر اس کی پرستش نہیں کی |
| آرزو لاکھ سہی وصل کی رم جھم برسے |
| غیرتِ عشق نے بادل سے گذارش نہیں کی |
| عقل اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی |
| تُو نے دیکھا ہے مگر چاند نے گردش نہیں کی |
| اک غزل جسم نے ڈھائی ہے قیامت دل پر |
| کون سے مصرعے نے جذبات میں شورش نہیں کی |
| میں وہ مقتول ہوں جس کا نہیں قاتل کوئی |
| میں وہ مجرم ہوں کہ جس نے کوئی سازش نہیں کی |
| میں نے چپ چاپ ترے عشق کے آزار سہے |
| قلبِ خوں بار کی لوگوں میں نمائش نہیں کی |
| اک اسی بات پہ روٹھا ہوں قلم سے آسیؔ |
| اس نے اشعار سُنے اور ستائش نہیں کی |
معلومات