اس کے دیکھے سے بھی گل کھِلا ہی نہیں
اس لیے موسموں سے گلہ ہی نہیں
اولیں جام سے ہی بہک جائے جو
ایسے کم ظرف کو تو پِلا ہی نہیں
مجھ سے ملنے وہ آیا بچھڑتے سمے
جانے کیا سوچ کر میں مِلا ہی نہیں
ہائے یہ وقت بھی دیکھنا تھا ہمیں
جب وفا نام کا سلسلہ ہی نہیں
چشمِ بد کا اگر خوف ہے اس قدر
پیڑ جوبن کا اپنے ہِلا ہی نہیں
مبتلا عشق میں جو رہا ہو اسے
کوئی بھی ابتلا ، ابتلا ہی نہیں
کار الفت کی اجرت اگر جسم ہے
ہم کو پھر آرزوئے صلہ ہی نہیں
۔۔۔

0
55