اس کے دیکھے سے بھی گل کھِلا ہی نہیں |
اس لیے موسموں سے گلہ ہی نہیں |
اولیں جام سے ہی بہک جائے جو |
ایسے کم ظرف کو تو پِلا ہی نہیں |
مجھ سے ملنے وہ آیا بچھڑتے سمے |
جانے کیا سوچ کر میں مِلا ہی نہیں |
ہائے یہ وقت بھی دیکھنا تھا ہمیں |
جب وفا نام کا سلسلہ ہی نہیں |
چشمِ بد کا اگر خوف ہے اس قدر |
پیڑ جوبن کا اپنے ہِلا ہی نہیں |
مبتلا عشق میں جو رہا ہو اسے |
کوئی بھی ابتلا ، ابتلا ہی نہیں |
کار الفت کی اجرت اگر جسم ہے |
ہم کو پھر آرزوئے صلہ ہی نہیں |
۔۔۔ |
معلومات