تمہارا ہوتے ہوئے بھی تم سے جدا رہا ہوں
اور اس مرض میں کئی برس مبتلا رہا ہوں
متاعِ عمرِ رواں کچھ ایسے لٹا رہا ہوں
کسی کی خاطر کسی کے خوابوں میں آرہا ہوں
مری جفا کے ہر اک محلے پہ دسترس ہے
میں ایک مدت اسیرِ دشتِ وفا رہا ہوں
مرے خدا میری یہ خطا بھی معاف کردے
کہ اس سے ملنے کسی کی میت پہ جارہا ہوں
سکھا رہا ہوں میں اپنے بچوں کو درد سہنا
میں اپنے بچوں کو شعر کہنا سکھا رہا ہوں
امورِ صحرا پہ مشورے دے نہ مجھ کو دانش
جبل میں فرہاد کا میں ہی رہ نما رہا ہوں
جو سو رہے ہیں جگانے آیا ہوں ان کو آسیؔ
جو جاگتے ہیں انہیں دوبارہ سُلا رہا ہوں

0
84