اس طرح ہوتی نہ پسپائی فصیلِ شہر پر
نیند کی دیوی تھی چِلائی فصیلِ شہر پر
کھوجتا ہوں دشتِ الفت میں کوئی شہرِ وفا
ختم ہوگی دشت پیمائی فصیلِ شہر پر
سنسنی پھیلی صفوفِ دشمنانِ عشق میں
دیکھ کر اپنی پزیرائی فصیلِ شہر پر
باغیوں کی ٹھوڑیاں سینوں سے ٹکرانے لگیں
شاہ زادی جب نظر آئی فصیلِ شہر پر
بابِ دل کی چٹخنی اتری ہوئی دیکھی نہیں
پھونک ڈالی سب توانائی فصیلِ شہر پر
خوبرو اک حملہ آور کی زیارت کے لیے
منتظر تھے سب تماشائی فصیلِ شہر پر
تجھ کو ہے دربارِ الفت میں حضوری کا سرور
موت کا ہوں میں تمنائی فصیلِ شہر پر

0
81