دیکھا تھا جس نے دانت کے نیچے دبا کے ہونٹ
بھڑکا گئے ہیں پیاس اسی اپسرا کے ہونٹ
میں نے سوالِ تشنگی اک خط میں جب کیا
بھیجے مجھے جواب میں اس نے بنا کے ہونٹ
لرزیں ذرا جو ہونٹ کوئی بات کرتے وقت
حسرت سے دیکھیں ایڑیاں اپنی اٹھا کے ہونٹ
لکھا بہت ہے گرمی ِ رخسارِ یار پر
لیکن کبھی نہ دیکھا ہے اس کو لگا کے ہونٹ
تب ہو گیا یقین کہ رستہ بھٹک چکے
دیکھے جو کپکپاتے ہوئے رہنما کے ہونٹ
گھر واپسی تلک میں رہوں گا امان میں
آتے ہوئے جبیں پہ تھے ماں کی دعا کے ہونٹ
سیراب کر دیا اسے جامِ حیات سے
سوکھے نہ دیکھ پائے قمر ہم قضا کے ہونٹ

0
102